”ہمیں کرگل اور لیہہ کے لوگوں سے سبق سیکھنا چاہئے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کرگل اور لیہہ کے لوگ ایک ہی سٹیج پر بیٹھ کر بات کریں گے، لیکن آج وہ ایک ہی آواز میں بات کرتے ہیںکی بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ کل جس طرح سے دونوں اضلاع میں مطالبات کو لیکر جو ہمہ گیر ہڑتال دیکھنے کو ملی وہ نہ صرف ہمارے لئے مشعل راہ ہے بلکہ مرکز کیلئے بھی چشم کُشا ہونی چاہئے۔“سی این آئی کے مطابق تنظیمی انتخابات کے بعد ضلع سطح پر ورکروس کنونشنوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے گاندبل میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”لیہہ والے بہت عرصے سے یوٹی یوٹی کا مطالبہ کرتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ کشمیریوں نے ہمارا سارا حق کھایا ، اگر چہ ہم نے اُن سے بار بار کہا کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اُس کی قدر اور حفاظت کیجئے لیکن اُن کو سمجھ نہیں آیا اور جس دن دفعہ370کا خاتمہ ہوا وہاں پٹاخے سرکے گئے ،مٹھائیاں بانٹی گئی اور جشن منایا گیا اور کہا گیا کہ ہم آزاد ہوگئے اور یہ ایک نئی شروعات ہے لیکن کچھ عرصے گزر جانے کے بعد ہی اُنہیں معلوم پڑ گیا کہ دفعہ370کے جانے سے اُن کو کتنا نقصان ہوا ہے ۔ دو سال کے اندر اندر اُن
کو سمجھ آگیا کہ اُن کو کچھ نہیں ملا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ کل تک یو ٹی کیلئے لڑ رہے تھے وہی آج ریاست کی مانگ کررہے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اسمبلی دی جائے، ہمیں وہ تمام اختیارات دیئے جائیں جو دفعہ370کے تحت حاصل تھے ،ہمیں آئینی حفاظت دیا جائے اور اس کیلئے وہ کرگل کے لوگوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کررہے ہیں“۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ”ہم بھی چاہتے تھے کہ ہماری آواز متحدہ رہے اور اس کیلئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ہر ایک جماعت کے لیڈر کو ساتھ لایا، مقصدکرسی حاصل کرنا نہیں تھا، مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا، مقصد وزیر اعلیٰ بننے کا نہیں تھا ، مقصد صرف یہ تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی بکھری ہوئی آواز کو درست کیا جائے اور اسے مضبوط کیا جائے، لیکن وہ بھی ہمارے کچھ مہربانوں کو پسند نہیں آیا، پہلے اتحاد میں آئے اور پھر چلے گئے ۔ مرکز نے اس اتحاد کو توڑنے کی سازشیں بھی کیں اور یہاں کے کچھ لوگ بھی آگے نکلنے کی سوچ لیکر اس اتحاد سے علیحدہ ہوگئے“۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ یہاں پر اقتدار کا حق ایک ہی جماعت یا ایک ہی خاندان کو ہے لیکن ہم اس بات کے بھی حامی نہیں کہ غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار حاصل کیا جائے۔ ”لوگوں کو سچ بول کر اور سچ کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ مانگئے، اگر آپ جیت گئے تو بے شک آپ اقتدار پر براجمان ہوجائے لیکن جھوٹ اور دھوکے کی بنیادو اور لوگوں کو گمراہ کرنے سے آپ نہ صرف اس ریاست کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کررہے بلکہ آپ خود کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور پھر اس کاخمیازہ ریاست کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے“۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ابھی بھی ہماری کوشش یہی ہے کہ ہماری آواز بکھر نہ جائے، ابھی بھی ہماری یہی کوشش ہے کہ ہم ایک متحدہ فرنٹ کے ذریعے 5اگست2019کو چھینے گئے حقوق کیلئے ایک آواز میں بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ ”میں نے لوگوں کو ہوشیار کرتا تھا اپنے ووٹوں کو تقسیم مت ہونے دو،آپ کی آواز کمزور ہوجائیگی