خصوصی عدالت نے ملزمان کے نارکو ٹیسٹ اور پولی گراف کی درخواست مسترد کر دی
سرینگر/جموں میں قائم ایک خصوصی عدالت نے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی وہ درخواست مسترد کر دی ہے جس میں پہلگام حملے میں گرفتار دو ملزمان کے پولی گراف اور نارکو اینالیسس ٹیسٹ کرانے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے ”سائنسی طریقے“ آئین میں درج ملزمان کے خود کو ملزم ثابت کرنے کے خلاف حق right against self incrimination. کی خلاف ورزی ہوں گے۔این آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ دونوں ملزمان نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ان ٹیسٹوں پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم عدالت میں پیش کیے جانے پر بشیر احمد اور پرویز احمد نے واضح طور پر کہا کہ وہ کسی بھی پولی گراف یا نارکو ٹیسٹ کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ دونوں افراد 26 جون کو اس الزام میں گرفتار کیے گئے تھے کہ انہوں نے حملہ آور دہشت گردوں کو پناہ فراہم کی تھی۔چھ صفحات پر مشتمل عدالتی حکم نامے میں کہا گیاکہ ”آج دونوں ملزمان عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی قسم کے پولی گراف یا نارکو ٹیسٹ کے لیے تیار نہیں ہیں۔“این آئی اے کے چیف تحقیقاتی افسر نے 29 اگست کو عدالت سے یہ اجازت طلب کی تھی۔ لیکن دفاعی وکیل نے دلیل دی کہ ایجنسی نے ملزمان کی کوئی رضامندی تحریری طور پر قید خانہ میں ریکارڈ نہیں کی، اس لیے اس درخواست کو رد کیا جائے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ زبردستی سائنسی ٹیسٹ کروانا آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔فیصلے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک فیصلے اور قومی انسانی حقوق کمیشن کی ہدایات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جن کے مطابق ایسے ٹیسٹوں کے لیے ملزمان کی رضامندی عدالتی مجسٹریٹ کے سامنے لی جانی چاہیے اور ٹیسٹ کسی آزاد ادارے، مثلاً اسپتال، کی نگرانی میں وکلاءکی موجودگی میں ہونا ضروری ہے۔این آئی اے کے مطابق دونوں گرفتار شدہ افراد نے پہلگام کے بائیسرن وادی میں حملے سے قبل تین مسلح دہشت گردوں کو ایک جھونپڑی (ڈوک) میں پناہ دی تھی اور انہیں کھانے پینے سمیت دیگر سہولتیں فراہم کی تھیں۔ 22 اپریل کو ان دہشت گردوں نے وہاں موجود سیاحوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایا اور 26 افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں مختلف ریاستوں کے 25 سیاح اور ایک مقامی نوجوان سید عادل شاہ شامل تھے، جو سیاحوں کو بچانے کی کوشش میں مارے گئے۔اس واقعے کے بعد 28 جولائی کو فوج نے تینوں دہشت گردوں کو ایک آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔ این آئی اے نے گرفتار ملزمان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 19 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔