ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مشکوک قراردیتے ہوئے معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا
سرینگر///نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وادی کشمیر میں ملٹنسی کے بڑھتے واقعات کو شک کے دائرے میں لاتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے شک ہے کہ یہ گولی باری عمر کی قیادت والی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ بقول نیشنل کانفرنس صدرعوامی منتخب حکومت بننے سے پہلے اس طرح کے واقعات میں اضافہ کیوں نہیں ہوا؟انہوںنے کہا کہ دہائیوں بعد وادی کشمیر میں امن لوٹ آیا ہے ، سیاحت کو فروغ ملا، انتخابات بغیر کال بائیکاٹ کے ہوئے لیکن اس طرح سے تشدد آمیز واقعات میںاضافہ کچھ تو اشارہ کرتے ہیں۔ وائس آف انڈیا کے مطابق نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ہفتہ کو جموں کشمیر میں حکومت کے قیام کے بعد انکاونٹر میں اضافے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔”مجھے شک ہے کہ حکومت سازی سے پہلے گولیوں کی لڑائی کیوں نہیں بڑھی۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈاکٹر فاروق نے سری نگر میں اپنی گپکا رہائش گاہ پر میڈیا کے منتخب گروپ کو بتایا کہ یہ جاننے کے لیے آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ یہ کون کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خانیار کے علاقے میں پھنسے دہشت گردوں کو ہلاک نہیں کیا جانا چاہیے تھابلکہ انہیں گرفتار کیا جانا چاہیے، تھا "انہیں یہ جاننے کے لیے گرفتار کیا جانا چاہیے تھا کہ آیا عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کسی ایجنسی کو کام سونپا گیا ہے ۔ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ سیاحت فروغ پا رہی ہے اور لوگ اپنا کاروبار کر رہے ہیں، کاروباری سرگرمیںاپنے عروج پر تھی لیکن اب حکومت سازی کے مکمل ہونے کے بعد یہ تشدد آمیز واقعات بڑھ رہے ہیں اسی لیے میں تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہوں،“ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں حکومت کے قیام کے بعد، غیر جموں و کشمیر کے مزدوروں اور سیکورٹی فورسز پر بھی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔یہاں یہ بات قابل امر ہے کہ انتخابات سے پہلے جموں صوبے میں ملٹنسی کی کئی وارداتیں رونماءہوئیں تھی جن میں متعدد افراد مارے گئے ۔ اب الیکشن ختم ہونے کے بعد وادی میں اس طرح کی تشدد آمیز کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں جس سے نہ صرف لوگوں میں ایک بار پھر بے چینی پھیل گئی ہے بلکہ اس سے سیاحت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔