اپنی انقلابی اور جذباتی شعری سے برصغیر میں ایک تاریخ رقم ہوئی
یوم اقبال کے سلسلے میں دنیا بھر کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی تقریبات منعقد
سرینگر/09نومبر/سی این آئی// شاعر مشرق اور انقلابی شاعر علامہ سر محمد اقبال کی یوم پیدائش پر دنیا بھر میںیوم اقبال کے سلسلے میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا جبکہ وادی کشمیر میں بھی اس سلسلے میں مختلف انجمنوں اور اداروں کی جانب سے تقریبات منعقد کی گئیں اور مرحوم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ کرنٹ نیوآف انڈیا کے مطابق شاعر مشرق علامہ سرمحمد اقبال کے یوم پیدائش پر دنیا بھر کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی تقریبات منعقد کی گئیں۔ 9نومبر1877کو علامہ محمد اقبالؒ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مکتب سے حاصل کی اور پھر استاد میر حسن کے پاس بھیج دئیے گئے (جب برطانوی حکومت نے علامہ اقبال کو” سر“ کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے پہلے اپنے استاد میر حسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دینے کی شرط رکھی کہ تب وہ ”سر“ کا خطاب قبول کریں گے)۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مشن ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور آگئے جہاں انہوں نے 1897میں بی اے کیا اور اس کے دو سال بعد ایم اے کر لیا۔ جس کے بعد وہ اورینٹل کالج میں لیکچرارکے طور پر خدمات سرانجام دینے لگے۔اورینٹل کالج میں علامہ اقبال کی ملاقات مشہور پروفیسر سر تھامس آرنلڈ سے ہوئی جن کے مشورے پر وہ یورپ تشریف لے گئے جہاں سے انہوں نے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع” میٹا فزکس آف پرشیا“تھا۔ مسلم لیگ کی بنیاد 1905میں نواب سلیم اللہ ڈھاکہ میں رکھ چکے تھے، انہوں نے ہندوستان کے تمام نوابین اور والیانِ ریاست کو مسلم لیگ میں شرکت کی دعوت دی۔ انڈین نیشنل کانگریس ہندوﺅں کے مفادات کی محافظ جماعت بن چکی تھی جس کے مقابلے میں مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے وجود میں آئی، انگلستان میں بھی مسلم لیگ قائم ہو چکی تھی جس کی قیادت جسٹس امیر علی کر رہے تھے۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒنے 1911میں مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی اور پھر بڑی سرگرمی کے ساتھ اس کے لئے کام کرنا شروع کر دیا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی شاعری اور تقاریر کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو ایک الگ اسلامی جمہوری ریاست کے حصول کی ترغیب دی۔ علامہ صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے والی مسلم کمیونٹی کو بیدار کرنے اور ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1927کے انتخابات میں وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں، دیہی علاقوں کی بہتری ،خصوصاًخواتین کی طبی امداد کے لئے زیادہ بجٹ مختص کروانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جن دنوں علامہ اقبال پنجاب اسمبلی کے رکن تھے انہی دنوں انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سیکرٹری بھی منتخب کر لیا گیا۔ علامہ اقبال نے 1930میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہٰ آباد میں منعقدہ اجلاس کے ، اپنے خطبے میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔تحریکِ پاکستان انقلابِ فرانس اور روس سے بڑا کارنامہ تھا جس کو اگر علامہ اقبال جیسا شاعر اور مفکر نہ ملتا تو شاید پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آپاتا۔ علامہ اقبال ایک فلسفی اور انقلابی ہیں جنہوں نے اپنی قوم تک اپنے نظریات پہنچانے کے لئے اس وقت کے موثر ترین ذریعہِ اظہار شاعری کو چنا۔ علامہ اقبال کا خاندان کشمیری برہمنوں کا خاندان تھا یہ لوگ تین سو سال قبل مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ نور محمد اور والدہ نہایت نیک، متقی اور پرہیز گار تھیں۔ ایک رات شیخ نور محمد نے خواب میں دیکھا کہ ان کے صحن میں ایک نورانی فرشتہ اترا ہے جس کے نور کی روشنی دور دور تک پھیل گئی ہے۔ 1932میں علامہ اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن گئے ، قائدِ اعظم محمد علی جناح ہندوستان کی سیاست سے بددل ہو کر انگلستان جا چکے تھے اور وہاں پریوی کونسل میں نہایت کامیاب وکیل کے طور پر پریکٹس کر رہے تھے انہی کے قائل کرنے پر قائدِ اعظم محمد علی جناح وطن واپس آئے۔ اپریل 1936ءمیں قائدِاعظم علامہ اقبال ؒکی قیام گاہ لاہور، تشریف لائے اور علامہ اقبال ؒکو انتخابات لڑنے کیلئے آمادہ کیا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے جون 1936سے نومبر 1937تک قائدِ اعظم کو جو خطوط تحریر کیے وہ تحریکِ پاکستان کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔1937میں علامہ اقبال کی بینائی خاصی متاثر ہو چکی تھی انہوں نے ایک خط میں قائدِ اعظم سے معذرت چاہی کہ انہیں مسلم لیگ کی خدمات سے سبکدوش کر دیا جائے تاہم ان کی تمام تر دانش اور مشورے مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کے لئے آخری وقت تک وقف رہے۔ 21اپریل 1938کو یہ عظیم فلسفی ، عظیم رہنما ، عظیم شاعر اور پاکستان کے تصور کے خالق اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انہیں ان کی زندگی میں اپنے خواب کی تعبیر دیکھنا نصیب نہ ہوئی لیکن پاکستانی قوم اپنے محسن کو نہیں بھولی ان کے مزار پر ہر روز پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا ہے۔