نئی دلی/ بمسٹیککے اراکین کو تجارتی مذاکرات کے حوالے سے رکن ممالک کی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے تاکہ تاخیر کا شکار آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔ یہ بات کامرس اور صنعت کے مرکزی وزیر جناب پیوش گوئل نے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (CII) کے زیر اہتمام خلیج بنگال انیشیٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن ( بمسٹیک) بزنس سمٹ کے افتتاحی ایڈیشن میں اپنی تقریر کرتے ہوئے کہی۔ اپنے خطاب میں جناب گوئل نے کہا کہ بمیسٹک آزاد تجارتی معاہدے میں تاخیر کی وجوہات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین کو ایک ایسی ٹھوس سفارشات پیش کرنے کی ضرورت ہے جو ساتوں ممالک کے لیے قابل قبول ہوں۔ انہوں نے تجارتی مذاکراتی کمیٹی اور تاجر برادری پر زور دیا کہ وہ علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور علاقائی مسابقت کو بڑھانے کے لیے ترجیحی تجارتی معاہدے پر غور کریں۔جناب گوئل نے بمسٹیک کے اراکین سے موجودہ تجارتی تعلقات کا خود جائزہ لینے کے لیے کہا کہ بمسٹیک ممالک کے درمیان تجارت بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ ہم اس کی مکمل صلاحیت حاصل کر سکیں، بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ مرکزی وزیر نے ایماندارانہ رائے فراہم کرنے اور تجارتی سہولت اور سامان کی سرحد پار نقل و حرکت کو مضبوط بنانے میں مدد کے لیے رکن ممالک کے درمیان گہرے انضمام پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تجارتی خسارے کو کم کرنے، ای کامرس میں شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے تجارتی سہولت کاری کے اقدامات کو مضبوط بنانے، ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے کسٹم بارڈرز کے بہتر انضمام پر توجہ دی جانی چاہیے۔ وزیر نے نوٹ کیا کہ سرحدی کنٹرول کو کمپیوٹرائزڈ کرنے، امپورٹ ایکسپورٹ آن لائن درخواست کے عمل کو تیز تر کلیئرنس کی ضرورت ہے جس سے کاروبار کرنے میں آسانی پیدا ہوگی۔وزیر نے کہا کہ سپلائی چین کو مضبوط بنانے، ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو ہٹانے، بین الاقوامی اصولوں کو اپناتے ہوئے تجارتی سہولت کاری کے اقدامات کو مضبوط بنانے اور بغیر کسی رکاوٹ کے نقل و حمل کے رابطوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے، جو کہ تجارت اور سرمایہ کاری کے درمیان تعاون کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے۔ جناب گوئل نے سرمایہ کاری، تجارت اور سیاحت میں مدد فراہم کرنے کے لیے سات رکن ممالک کے اسٹارٹ اپس اور کاروباری افراد کے وسیع تر انضمام کی امید ظاہر کی۔ انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کریں اور ایک دوسرے کے درمیان غذائی تحفظ، صحت کی دیکھ بھال اور انسانی وسائل کی ترقی کو محفوظ بنانے کے لیے زرعی تعاون کو فروغ دیں۔