ٹیلی کام کا شعبہ گھپلوں سے نکل کر اُبھرتا ہوا شعبہ بن گیا: اشونی ویشنو
اخبارات اور میگزین کی رجسٹریشن کی عمل کو آسان بنایا گیا: انوراگ سنگھ
نئی دہلی، 21 دسمبر (ایجنسیز۔یو این آئی) راجیہ سبھا نے آج ٹیلی کام بل 2023 کو اپوزیشن کی موجودگی میں صوتی ووٹ سے منظور کر دیا جبکہ لوک سبھا نے اخبارات، میگزین وغیرہ شائع کرنےوالے لوگوں کیلئے رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنانے والے ‘پریس اور میگزین رجسٹریشن بل 2023’ جمعرات کو صوتی ووٹ سے منظور کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے کہا کہ ٹیلی کام بل کے پاس ہونے کے بعد نہ صرف ٹیلی کام سیکٹر میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے بلکہ مفادات کے تحفظ کے لیے بھی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جعلی دستاویزات پر سم حاصل کرکے فراڈ کرنے والوں کےخلاف بھی شکنجہ کسنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس طرح آج اس پر پارلیمنٹ کی مہر لگ گئی۔ وزیر مواصلات اشونی ویشنو نے راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ نیا بل نوآبادیاتی دور کے قوانین کو ختم کرتے ہوئے بنایا گیا ہے ۔ پچھلے ساڑھے نو برسوں میں یہ شعبہ گھپلوں سے نکل کر ابھرتا ہوا شعبہ بن گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سال 2014 میں ملک میں 6.25 لاکھ ٹاور تھے جو اب بڑھ کر 25.5 لاکھ ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی براڈ بینڈ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد بھی 1.5 کروڑ سے بڑھ کر 85 کروڑ ہو گئی ہے ۔ دریں اثناءلوک سبھا نے اخبارات، میگزین وغیرہ شائع کرنے والے لوگوں کے لیے رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنانے والے ‘پریس اور میگزین رجسٹریشن بل 2023’ جمعرات کو صوتی ووٹ سے منظور کر دیا۔ راجیہ سبھا مانسون سیشن میں ہی اس بل کو پاس کرچکی ہے۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ سنگھ نے پریس اینڈ پیریڈیکل رجسٹریشن بل 2023 پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ رجسٹریشن کے لیے لوگوں کو بار بار چکر لگانا پڑتا تھا اور ضلع افسر کی اجازت کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن اب اسے آسان کر دیا گیا ہے ۔ ترمیم کی گئی اور ان تمام قوانین کو ہٹا دیا گیا ہے جو اس میں غیر ضروری رکاوٹیں تھیں۔ اب آن لائن منشور کے ذریعے اخبارات شائع کرنے کے خواہشمند افراد کو آر این آئی کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر کوئی رسالہ یا مقالہ دو سال تک شائع نہ ہوا ہو تو اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر ایک ہی نام سے دو ریاستوں میں اخبار چل رہے ہیں تو این آر آئی انہیں صرف ایک جگہ پر شائع کرنے کا حکم دے سکتا ہے ۔مرکزی وزیر نے کہا کہ ریاستی حکومتوں کو بھی صحافیوں کی مدد کرنی چاہئے ۔