یہ پورے ملک کی میوہ صنعت کیلئے نقصان دہ ہے،وادی کے میوہ بیوپاری اور کاشتکاروں کارد عمل
سرینگر//بھارت کی جانب سے امریکی مصنوعات بشمول چنا ،دال ،بادام ،اخروٹ اور سیب کی درآمد پر ڈیوٹی میں مزید کٹوتی کا فیصلہ سامنے آنے پر وادی کشمیر کے میوہ بیوپاریوں نے سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس اقدام سے کشمیری میوہ جات کو مارکیٹ میں مزید نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ٹی ای این کے مطابق مرکزی وزارت خزانہ نے تقریباً نصف درجن امریکی مصنوعات پر مزیداضافی ڈیوٹیز میں مزید تخفیف کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں وادی کے میوہ بیوپاریوں نے پریشانی اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ نہ صرف وادی بلکہ بیرونی ریاستوں کی میوہ پیداوار پر بھی اثر انداز ہوگا اور عمومی طور کاشتکاروں کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا ۔کشمیر ویلی فروٹ گرورس اینڈ ڈیلرس یونین صدر بشیر احمد بشیر نے ٹی ای این کو بتایا کہ یہ فیصلہ پہلے ہی لیا گیا ہے اور اب اس حوالے سے باضابطہ نوٹفکیشن جاری کی گئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ یہ ایک نقصان دہ فیصلہ ہے اور اس سے کشمیری سیب اور دیگر میوہ جات اخروٹ اور بادام کی تجارت بھی متاثر ہوگی۔انہوں نے کہاکہ یہ صرف وادی ہی نہیں بلکہ ہماچل اور اتراکھنڈ کے سیب کاشتکاروں کیلئے نقصان دہ ہے ۔بشیر احمد بشیر نے کہاکہ حکومت کو اس معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ کشمیر میں پہلے ہی پیداوار امسال کم ہوئی ہے اور سیب کا سائز اور معیار بھی کم ہورہا ہے ۔یہ نقصان ہے اور اس پر بیرونی ممالک کے سیب کی فری درآمد مزید نقصان کرے گی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر، بھارت چنے (10 فیصد)، دال (20 فیصد)، تازہ یا خشک بادام (7 روپے فی کلو)، بادام کے چھلکے (20 روپے فی کلو)، اخروٹ (20 روپے فی کلو) ، اور تازہ سیب (20 فیصد)پر اضافی ڈیوٹی ہٹائے گا۔وزارت خزانہ نے 5 ستمبر کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے چنے، دال (مسور)، سیب، اخروٹ اور تازہ یا خشک بادام کے ساتھ ساتھ بادام کے چھلکے سمیت مصنوعات پر ڈیوٹی ہٹانے کے بارے میں اعلان کیا۔یہ اقدام امریکی صدر جو بائیڈن کے 9-10 ستمبر کو جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ہندوستان کے دورے سے پہلے ہوا ہے۔جون میں وزیر اعظم کے امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران، دونوں ممالک نے WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کے چھ تنازعات کو ختم کرنے اور بعض امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔جولائی میں، تجارت اور صنعت کی وزیر مملکت انوپریہ پٹیل نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ حکومت نے بادام (تازہ یا خشک، خول میں)، اخروٹ، چنے، دال، کی درآمد پر جوابی کسٹم ڈیوٹی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ جوابی ٹیرف یا درآمدی ڈیوٹی میں کٹوتی کے نتیجے میں ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2022-23 میں، دو طرفہ اشیا کی تجارت بڑھ کر 128.8 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ 2021-22 میں 119.5 بلین امریکی ڈالر تھی۔