کابل/ ایجنسیز/ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے سربراہان حکومت اور وزرائے خارجہ نے ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران افغانستان میں مزید سرمایہ فراہم کرنے پر اتقاق کیا۔تاہم طالبان کو فنڈز دینے کی بجائے دیگر طریقوں پر غور کیا گیا۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے انتباہ کیا تھا کہ جنگ سے متاثرہ ملک افغانستان کی معیشت، جو اب طالبان کے کنٹرول میں ہے، انسانی تباہی کے دہانے پر پہنچ رہی ہے۔ گوتیرس نے جی-20 کے رہنماو¿ں کے افغانستان سے متعلق ایک غیر معمولی اجلاس سے چند گھنٹے قبل نیویارک میں کہا تھا کہ اگر ہم نے اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے افغان باشندوں کی مدد نہ کی تو جلد ہی اس کی بھاری قیمت نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کو چکانی پڑے گی۔ یہ اجلاس طالبان کی جانب سے اگست کے دوران افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی بار ہوا جس میں افغانستان کی صورت حال پر اظہار خیال کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے نیویارک میں کہا کہ افغان شہریوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ان کے پاس روزگار نہیں ہے، انہیں اپنے حقوق کا تحفظ حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ افغان باشندے اپنے ملک سے فرار ہو کر دوسرے علاقوں کی طرف جائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں وہاں غیر قانونی منشیات، مجرمانہ سرگرمیاں بڑھنے اور دہشت گرد نیٹ ورکس مضبوط ہونے کےخطرے میں اضافہ ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے انتباہ کا جی -20 کانفرنس پر فوری اثر ہوا اور اٹلی کے وزیر خارجہ لوئجی ڈی ماریو نے کہا کہ افغان ریاست کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔