کشمیر کے لوگ درد اور الجھن میں ہیں، انہیں اس غیر یقینی صورتحال سے نکالنے کی ضرورت
ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے
: جموں کشمیر گانگریس پارٹی کے اندرونی خلفشار کے بیچ سابق وزیر اعلی اور کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ماضی کے مقابلے میں جنوبی کشمیر کے انت ناگ، کولگام، پلوامہ اور شوپیان اضلاع میں ملٹنسی عروج پر ہے جبکہ سرکار کی جانب سے نوجوانوں کی ضروریات اور جزبات کو نظر انداز کرنے کے باعث حالیہ برسوں کے دوران متذکرہ علاقوں میں زیادہ عسکریت پسندی دیکھی گئی ہے اور لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کہ سابق وزیر اعلی اور کانگریس کے سینر لیڈر غلام نبی آزاد نے کولگام میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری وادی میں عسکریت پسندی عروج پر ہے لیکن جنوبی کشمیر میں پچھلے تین سالوں میں زیادہ ملٹنسی دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس سنجیدہ معاملے کو جاننے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام لیڈران پر یہ لازمی ہے کہ وہ ان علاقوں کا دورہ کریں جہاں عسکریت پسندی عروج پر ہے۔ تام سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہا کہ سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو ایک دوسرے کو گالی یا الزامات لگانے کے بجائے جموں و کشمیر میں ایسی صورتحال پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جہاں عوام دوبارہ حکومت پر اعتماد کر سکیں۔آزاد نے کہا کہ لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے اور میں کانگرس پارٹی کے رہنماو¿ں سمیت تمام سیاسی لیڈران سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے دوسرے رہنماو¿ں کو گالی دینے سے گریز کریں۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ایک پرامن صورتحال پیدا کرنے کے لیے خاص طور پر جہاں عسکریت پسندی عروج پر ہے، وقت کی ضرورت ہے کیونکہ جموں و کشمیر کے لوگ درد میں ہیں ،وہ الجھن میں ہیں اور لوگوں کو اس غیر یقینی صورتحال سے نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی حکومت پر ان کا اعتماد دوبارہ بحال ہو سکے۔کانگریس لیڈر نے کہا کہ آل پارٹی میٹنگ میں ہم پہلے ہی مرکزی حکومت کو اپنا موقف بتا چکے ہیں کہ پہلے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دیا جائے اور اس کے بعد حد بندی کی جائے لیکن مرکزی سرکار اس پر راضی نہیں ہوئی اس لیے ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فروری 2022تک حدبندی معاملات کا عمل مکمل کر لے تاکہ مارچ یا اپریل میں انتخابات کا عمل شروع کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف کشمیری مسلمان ہی نہیں ہیں جو ریاست کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن جموں و کشمیر کا ہر شہری یہ چاہتا ہے جبکہ جموں و کشمیر کے پنڈت، ہندو، سکھ اور مسلمان بھی ریاست کی بحالی کے مطالبے پر متحد ہیں۔کے این ایس کے مطابق غلام نبی آزاد نے مزید کہا کہ اس وقت ہماری ترجیح کشمیر کا وزیراعلیٰ بننا نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی اس حیثیت کو بحال کرنا ہے جو 04 اگست 2019تک تھی۔۔قابل ذکر بات ہی ہے کہ جموں کشمیر میں کانگریس پارٹی اندرونی خلفشار کی شکار ہیں کیونکہ درجنوں کانگریسی لیڈران جو غلام نبی آزاد کے قریبی سمجے جاتے ہیں نے حال ہی میں کانگریس عہدوں سے استعفیٰ دے دیا اور وہ جموں کشمیر میں کانگریس کے سربراہ کو تبدیل کرنے کی مانگ کررہے ہیں اور انکا ماننا ہے کہ موجودہ کانگریس صدر نے پارٹی کو تباہی کے دہانے پر آکھڑا کردیا ہے جبکہ غلام احمد میر کے حامی غلام نبی آزاد پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ آنے والے انتخابات کےلئے خود کو وزیر اعلی کے عہدے کے لئے ماحول بنا رہا ے۔