تین سال میں غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد دگنا ہوگئی
اقوام متحدہ، 25 اگست (یو این آئی)دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمایاں ہونے کے بعد اب دنیا میں منڈلاتا قحط کا خطرہ سر پر آن پہنچا ہے اور صرف 3 سالوں میں شدید غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد دگنا ہوگئی ہے ۔ اس حوالے سے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ کووڈ۔ 19 سمیت وبائی امراض، عالمی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیں کے باعث دنیا بھر میں شدید غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 345 ملین تک جا پہنچی ہے جو کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا آنے سے قبل 135 ملین تھی۔ ڈبلیو ایف پی کے علاقائی ڈائریکٹر کورین فلیشر نے غیر ملکی میڈیا کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے یہ خوفناک انکشاف بھی کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی تنازعات کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی چیلنجوں کا اثر ایک اور غیر مستحکم کرنے والا عنصر ہے جو خوراک کی کمی کو بڑھا سکتا ہے جو تنازعات اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بن سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم واقعی کوویڈ، موسمیاتی تبدیلی اور یوکرین میں جنگ کے پیچیدہ اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں،ہم اب دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور تنازعات کی وجہ سے 10 گنا زیادہ نقل مکانی دیکھ رہے ہیں اور یقیناً وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے ۔انہوں نے نشاندہی کی کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یوکرین کے بحران کے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، یمن اپنی غذائی ضروریات کا 90 فیصد درآمد کرتا ہے ۔ عراق جیسے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے لیے ، جو یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مستفید ہوئے ، خوراک کی سلامتی خطرے میں ہے اور اس کو بھی تقریباً 5.2 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے جب کہ اس کی ملکی پیداوار 2.3 ملین ٹن گندم ہے ، جس کی وجہ سے اسے بقیہ گندم مہنگے داموں درآمد کرنی پڑی۔ ریاستی حمایت کے باوجود، شدید خشک سالی اور بار بار پانی کے بحران پورے عراق میں چھوٹے مالکان کی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔