عالمی سطح پر مذمت، لوگوں میں خوف پھیلانے کی مذموم کوشش قرار
نایپدیو: ۵۲ جولائی (ایجنسیز) میانمار کے سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ فوجی حکام نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مدد کرنے کے الزام میں جمہوریت پسند چار کارکنوں کو سزائے موت دے دی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ سزائے موت دی گئی ہے۔ ان چاروں افراد کا رواں برس جنوری میں بند دروازوں کے پیچھے ٹرائل ہوا تھا جس میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر فوج سے لڑنے والی ملیشیا کی مدد کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے گزشتہ برس ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے مخالفوں کے خلاف خونی کریک ڈاو¿ن شروع کا آغاز کر دیا تھا۔ ان سزائے موت کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے دو ماہرین نے انہیں لوگوں میں ’خوف پھیلانے کی مذموم کوشش‘ قرار دیا ہے۔اخبار گلوبل نیو لائٹ آف میانمار کے مطابق سزائے موت پانے والے افراد میں جمہوریت کے لیے کام کرنے والے کیو من یو، جو جمی کے نام سے مشہور ہیں، اور سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ آرٹسٹ فاﺅ زیا تھاو¿ شامل ہیں۔53 سالہ کیو من یو اور 41 سالہ فاﺅ زیا تھاو¿ فوج کی جانب سے اقتدار سے نکالے جانے والی رہنما آنگ سان سوچی کے اتحادی تھے۔ دونوں کی اپیلیں جون میں مسترد کر دی گئی تھیں۔سزائے موت پانے والے دیگر دو افراد ہلا میو آنگ اور آنگ تھورا زاو¿ تھے۔اخبار نے تفصیل بتائے بغیر کہا ہے کہ ان چاروں پر انسداد دہشت گردی کے قانون اور تعزیرات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور یہ سزا جیل کے طریقہ کار کے تحت دی گئی ہے۔میانمار میں پھانسی کے ذریعے سزائے موت دی جاتی رہی ہے۔