واشنگٹن: ۵۲/اپریل (ایجنسیز) یوکرین پر روس کے حملے کے دو ماہ بعد، امریکی صدر جو بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو پہلے سے کہیں زیادہ الگ تھلگ ہوگیا ہے جو خواہش مندانہ سوچ کے مانندنظر آتا ہے۔ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ماسکو کا بائیکاٹ کرنے کے اقدامات میں بین الاقوامی برادری کے ایک طبقے کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جو اس معاملے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات اور اسٹریٹجک امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر سلوی میٹیلی کا کہنا ہے کہ ’مغربی بلاک سے روس کی ایک واضح تنہائی ہے، اس کی ایک خاص وجہ تجارتی اور مالیاتی تبادلے کو پیچیدہ بنانے والی مسلسل پابندیاں ہیں‘۔فرانسیسی محقق نے مزید کہا کہ ’جہاں تک بین الاقوامی منظر نامے پر روس کی تنہائی کا تعلق ہے، صورتحال بالکل مختلف ہے، بہت سے محتاط ممالک نے مغربی دباو¿ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے‘۔ 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یورپ اور شمالی امریکا میں فوری طور پر غم و غصے کو ہوا دی، جہاں رہنماو¿ں نے ماسکو کو الگ تھلگ کرنے اور اس پر ’بے مثال‘ پابندیاں عائد کرنے کا عزم کیا۔ بعد ازاں ہفتوں میں، نیٹو اور یورپی یونین کی فضائی حدود روسی طیاروں کے لیے بند کر دی گئیں اور امریکا نے روسی تیل اور گیس کے ساتھ ساتھ سمندری غذا، ووڈکا اور ہیروں کی درآمد پر پابندی کا حکم دے دیا۔ علاوہ ازیں کچھ روسی بینکوں کو سوئفٹ بین الاقوامی ادائیگی کے نظام سے خارج کر دیا گیا اور سینکڑوں اہم شخصیات کو یورپی سرزمین پر قدم رکھنے سے منع کردیا گیا۔ تاہم مغرب کے باہر ردعمل زیادہ محتاط رہا ہے، 2 مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، بھارت اور جنوبی افریقہ نے یوکرین سے روس کے انخلائ کے مطالبے کے لیے ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے۔