کشمیر میں شادی بیاہ کے سیزن کے باوجود سونے کی خرید و فروخت کا رجحان قدرے کم ہوا ہے ۔زیوررات کی تجارت سے وابستہ طبقے اسے قیمتوں میں بے تحاشا اچھال اور اس کی قیمتوں کو بے لگام چھوڑے جانے کی وجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ عام صارفین اتنے مہنگے سونے کی بڑے پیمانے پر خریداری سے خوف کھانے لگے ہیں اور فی الحال خریداری کا خیال ترک کررہے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں 50ہزار سے زائد لوگ بشمول صراف اور کاریگر سونے اور چاندی کے بیوپار سے وابستہ ہیں جبکہ دیگر کئی طبقے بھی اسکی درآمد و برآمد کے ساتھ جڑے ہی ں اور سونے کی طلب میں کسی بھی وجہ سے کمی کشمیر کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا ہے ۔خبررساں ایجنسی ٹی ای این سے بات کرتے ہوئے آل کشمیر گولڈ ڈیلرس یونین کے سربراہ بشیر احمد راتھر نے کہاکہ سونے کی قیمتوں میں بے تحاشا اچھال اس وقت خریداروں کو ہم سے دور رکھ رہا ہے ۔عام لوگ قیمتوں میں کمی کے رجحانات کا انتظار کررہے ہیں لیکن فی الحال ا قیمتوں میں کمی کے رجحانات کے آثار نہیں ہیں کیونکہ اس وقت ملکی و بین الاقوامی سطح پر گولڈ ہی ایک کرنسی بن رہی ہے اور اسی لئے عالمی سطح پر اسکی طلب میں اضافہ ہورہا ہے ۔بشیر احمد راتھر کا کہنا ہے کہ اگر کسی دورانیے میں چند روپے کم بھی ہوں لیکن اسکے بعد دوبارہ سونا مہنگا ہوجاتا ہے اور ہم اپنے خریداروں کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔واضح رہے کہ کشمیر میں سونے کے زیورات کی خریداری میں کمی کے رجحانات میں 3فیصد ٹیکس کا اطلاق اور اسکے بعد ہال مارک وغیرہ کی پابندی بھی شمار کی جاتی ہے ۔یونین سربراہ کے مطابق خریداروں کو جی ایس ٹی 3فیصد بھی ادا کرنا پڑرہا ہے اسکے علاوہ دیگر کئی قانونی بندشیں بھی ہیں اور یہ خرید وفروخت کے رجحانات پر اثر انداز ہوتا ہے ۔انہوںنے کہاکہ وادی میں تقریبا50ہزار کنبے بشمول صراف اور کاریگر اس ٹریڈ سے وابستہ ہیں لیکن بزنس میں گراوٹ ان کے روزگار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔حالیہ ایام میں کشمیر میں گولڈ کوائن کے حوالے سے پیدا ہوئے مسئلے پر بشیر احمد راتھر کا کہنا تھا کہ چند بیرونی بیوپاریوں نے غلط معلومات پھیلا کر کوائن کی قیمتوں پر اپنی اجارہ داری قائم کی تھی لیکن ہم نے اپنے خریداروں کو جانکاری فراہم کی اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ کسی غلط معلومات میں نہ آکر اپنا نقصان نہیں کرائیں گے ۔