سپریم کورٹ کے چار ججوں میں سے تین نے اس عمل کو قانونی قراردیا
عدالت عظمیٰ نے بینچ کے ایک جج کی رائے کے برعکس مرکزی سرکارکی جانب سے نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل قانونی دائرے میں رہ کر کیاگیا تھا ۔ عدالت عظمیٰ کی چار ججوں کی بینچ میں سے ایک نے اس عمل کے خلاف رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کام باضابطہ قانونی طور پر انجام دنہیں دیا گیا بلکہ صرف ایک نوٹفکیشن کے اجرا کے بعد یہ عمل شروع ہوا۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے 2016 کے نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب اس فیصلہ کو واپس نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے مقاصد کی حصولیابی پر بحث کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ علیحدہ موضوع ہے۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ نوٹ بندی کے فیصلے کو صرف اس لئے غلط نہیں قرار دیا جاسکتا کہ یہ مرکز کی جانب سے لیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکز کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے مشورے سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس نے آر بی آئی سے مشاورت کے بعد ہی یہ قدم اٹھایا تھا۔ مرکز اور آر بی آئی میں چھ ماہ تک اس سلسلہ میں گفت و شنید ہوتی رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ بات اس معاملہ سے تعلق نہیں رکھتی کہ نوٹ بندی کا مقصد حاصل ہوا یا نہیں۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے حکم کو پڑھتے ہوئے جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ معاشی پالیسی کے معاملات میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نوٹ بندی سے جعلی نوٹوں میں کمی، ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ، بے حساب آمدنی کا پتہ لگانے جیسے کئی فائدے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے نوٹ بندی کو جواز بناتے ہوئے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کی پالیسی اور نیت درست ہے۔ اس کے ساتھ مرکزی حکومت نے اس کے لیے آر بی آئی سے بھی مشورہ کیا تھا۔ اس لیے نوٹ بندی پر سوال اٹھانے والی تمام عرضیوں کو خارج کر دیا جاتا ہے۔ تاہم، عدالت نے واضح کیا تھا کہ وہ نوٹ بندی کے فوائد اور نقصانات کی بنیاد پر اپنا فیصلہ نہیں دے رہی ہے۔نوٹ بندی کے وقت، حکومت کو توقع تھی کہ نوٹ بندی سے کم از کم 3 سے 4 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن باہر آئے گا۔ تاہم، پوری مشق میں صرف 1.3 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن ہی سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی مقامات پر نئی کرنسی کے جعلی نوٹ بھی پکڑے گئے۔ آٹھ نومبر کو 500 اور 1000 روپے کے 15.52 لاکھ کروڑ روپے استعمال کے قابل نہیں رہے۔ اکتوبر 2022 میں، ایک رپورٹ نے انکشاف کیا کہ نوٹ بندی کے وقت جاری کیے گئے 500 اور 2000 کے نئے نوٹوں میں سے 9.21 لاکھ کروڑ روپے غائب ہو گئے ہیں۔ ان کا اکا¶نٹ آر بی آئی کے پاس نہیں ہے۔اس معاملے میں ایک بحث اس وقت بھی بڑھ گئی جب پتہ چلا کہ 2017-18 کے دوران 2000 کے نوٹ سب سے زیادہ چل رہے تھے، لیکن اس کے بعد اچانک غائب ہو گئے۔ تب معلوم ہوا کہ آر بی آئی نے 2019 میں ان کی پرنٹنگ روک دی تھی۔ نوٹ بندی کے وقت، مرکزی حکومت کو توقع تھی کہ بدعنوانوں کے گھروں کے گدوں اور تکیوں میں چھپا ہوا کم از کم 3-4 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن نکل آئے گا۔ پورے عمل میں صرف 1.3 لاکھ کروڑ کا کالا دھن نکلا… لیکن نوٹ بندی کے وقت جاری کیے گئے 500 اور 2000 کے نئے نوٹوں سے 9.21 لاکھ کروڑ غائب ہو گئے۔خیال رہے کہ مرکزی حکومت کے 2016 کے نوٹ بندی کے فیصلہ کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیاتھا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 7 دسمبر2022 کو مرکز اور ریزروبینک آف انڈیا(آربی آئی) کو ہدایت دی تھی کہ وہ حکومت کے 2016کے فیصلہ کا متعلقہ ریکارڈ پیش کریں۔اور سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھاتھا۔ اکتوبر 2022 میں 730 کروڑ کا ڈیجیٹل لین دین ہوا، یعنی ایک مہینے میں 12 لاکھ کروڑ روپے کا لین دین ریکارڈ کیا گیا۔ جو کہ 2016 میں 1.09 لاکھ لین دین تھا، یعنی تقریباً 6,952 کروڑ روپے۔