گذشتہ دنوں اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوئی کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کی بھرتی کے امتحانی پرچوں کی فروخت کا معاملہ طشت از بام ہوا جس میں کئی سرکاری افسر ،اہلکار اور چند صحافی بھی ملوث بتائے گئے ۔ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے سرکاری ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ سب انسپکٹر کی بھرتی کے لئے جو امتحان لئے گئے ان کے پرچے قبل از وقت افشا ہوئے تھے یعنی لیک ہوئے تھے اور سب سے پہلے یہ جموں کے ایک نواحی علاقے میں بعض اثر و رسوخ رکھنے والے افسروں کے پاس دیکھے گئے ۔اس معاملے پر شور وغل بلند ہوا ۔نتایج کا اعلان بقول مظاہرین توقع کے برعکس قرار دیا گیا اور جن امیدواروں کو ناکام قرار دیا گیا انہوں نے اس سارے معاملے پر زبردست احتجاج کیا ۔انہوں نے کہا کہ ان کو اس بات کا کوئی گلہ نہیں کہ وہ کیوں ناکام ہوگئے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سلیکشن کے عمل کی تحقیقات کی جاے کیونکہ ایک ہی کنبے کے تین افراد کو کامیاب قرار دے کر ان کی بھرتی کے لئے راہ ہموار کردی گئی ۔جب ناکام امیدواروں نے احتجاج کا دائیرہ وسیع کردیا اور بقول ان کے ٹھوس ثبوت لے کر لیفٹننٹ گورنر کو پیش کردئے گئے تو انہوں نے فوری طور اس کی تحقیقات کے احکامات صادر کئے ۔جس دوران پتہ چلا کہ سب انسپکٹر بھرتی کے لئے جو امتحانی پر چے مرتب کئے گئے تھے وہ قبل از وقت افشا ہوئے یعنی لیک ہوئے تھے اور ایک ایک پرچہ کئی کئی لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا ۔اب حکومت نے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کو تحقیقات کا کام سونپ دیا ہے اور اب یہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسی فوری طور اس سارے معاملے میں ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کرے گی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار پرچے کیسے لیک ہوگئے اور لیک کرنے والے کون لوگ ہوسکتے ہیں ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تحقیقات سی بی آئی کرے گی ۔جس شخص یا اشخاص نے اس معاملے میں کلیدی رول ادا کیا ہوگا وہ سخت سزا کے مستحق ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ انتہائی گھمبیر ہے ۔اس سے ان ہزاروں امیدواروں کا مستقبل تاریک بنایا گیا جو مستحق تھے اور جو پیسے خرچ نہ کر سکے بلکہ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر امتحان پاس کرنا چاہتے تھے ۔انہون نے پرچے بھی اچھے کئے ہونگے لیکن چونکہ اس معاملے میں مبینہ طور گڑ بڑکی گئی جس کے نتیجے میں قابل ،ذہین ،دیانتدار اور اہل امیدوار منتخب نہیں ہوسکے ۔جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے انہوں نے آسمان سر پر اٹھایا جو ان کا حق تھا اب چونکہ یہ پورا عمل معطل ہوچکا ہے اسلئے تحقیقاتی ایجنسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف و شفاف طریقے پرتحقیقات کرے تاکہ ملوثین چاہئے وہ کسی بھی پوزیشن کے مالک کیوںنہ ہوں کو سخت سزائیں دی جاسکیں ۔اس سے کیا ہوگا کہ آنے والے ہر امتحانی پراسس کی کڑی نگرانی ہوگی اور کبھی کوئی امتحانی پرچے قبل از وقت افشا کرنے کی جرات نہیں کرسکے گا۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسے کون لوگ ہیں جنہوں نے اس سارے معاملے میں رشوت کا بازار گرم کیا ہوگااور کس طرح مستحق امیدواروں کے حق پر شب خون مارکر ان امیدواروں کا سلیکشن یقینی بنایا جو رشوت کے بل بوتے پر منتخب ہوئے ہیں لیکن لیفٹنٹ گورنر نے سلیکشن کے عمل کو منسوخ کرنے کے احکامات صادر کرکے مثبت قدم اٹھایا ہے ۔اب تحقیقات کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ اس سکینڈل میں کون لوگ ملوث ہونگے جو سخت سزا کے مستحق ہیں۔