کشمیری پنڈت ملازمین کو محفوظ جگہوں پر تعیناتی ، ٹارگیٹ کلنگ کی روکتھام کی خاطر کئی اہم فیصلے لئے گئے
جموں وکشمیر کی تازہ ترین سیکورٹی صورتحال اور سالانہ امر ناتھ یاترا کے حوالے سے نئی دہلی میں وزیر داخلہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں ایل جی ، پولیس سربراہ، انٹیلی جنس چیف ، داخلہ سیکریٹری اور قومی سلامتی مشیرنے شرکت کی۔ اس میٹنگ کے دوران یاترا کو بہ احسن خوبی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر اضافی پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی عمل میں لانے کا فیصلہ لیا گیا ہے جبکہ ٹارگیٹ کلنگ کی روکتھام کی خاطر بھی کئی اہم فیصلے لئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق نئی دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی سربراہی میں جموں وکشمیر کی سیکورٹی صورتحال کو لے کر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں ایل جی منوج سنہا، پولیس سربراہ دلباغ سنگھ، انٹیلی جنس چیف آر آر سیون، ڈائریکٹر آئی بی، چیف سیکریٹر ی کے علاوہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق میٹنگ کے دوران وزیر داخلہ کو جموں وکشمیر کی تازہ ترین سیکورٹی صورتحال کے بارے میں جانکاری فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ سرگرم جنگجووں اور اُن کے معاونین کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے جس کے زمینی سطح پر مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کو بتایا گیا کہ جنگجووں کے ارادوں کو ناکام بنانے کی خاطر سیکورٹی ایجنسیاں اپنی خدمات خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہے اور کسی کو بھی امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ میٹنگ کے دوران کشمیری پنڈت ملازم راہول بھٹ کا مسئلہ بھی چھایا رہا جس دوران وزیر داخلہ کو جانکاری فراہم کی گئی کہ کشمیری پنڈت ملازمین کو محفوظ جگہوں پر تعینات کرنے کی خاطر اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیری پنڈتوں ملازمین کی سیکورٹی اولین ترجیح ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کی لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ مرکزی حکومت کشمیری پنڈتوں کووادی میں بسانے کی خاطر کئی مہینوں سے کام کر رہی ہیں اور حالیہ دنوں کے دوران متعدد کشمیری کنبے واپس گھر لوٹے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وادی کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹارگیٹ کلنگ پر روک لگ سکے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر چہ جموں وکشمیر کے حالات پچھلے برسوں کے مقابلے میں کافی بہتر ہوئے ہیں تاہم مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملی ٹینسی کا پوری طرح سے خاتمہ ہو سکے۔