فیصلہ میانمار حکومت پر اضافی بین الااقومی دباو¿ کا باعث بن سکتا ہے
واشنگٹن: ۱۲ مارچ (ایجنسیز) امریکہ نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو نسل کشی قرار دینے کافیصلہ کرلیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ یہ اعلان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ میانمار روہنگیا مسلمانوں کی آبادی پر کئی برسوں سے جاری ظلم دراصل نسل کشی ہے۔ وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سوموار کو امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں ایک تقریب کے دوران طویل عرصے سے متوقع ایک اعلان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ اس اقدام کا عوامی سطح پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ یہ اقدام میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف نئے سخت اقدامات کی نشاندہی نہیں کرتا کیونکہ وہ 2017 میں ملک کی مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا نسلی اقلیت کےخلاف مہم شروع ہونے کے بعد امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔

تاہم امریکی حکومت کا یہ اعلان میانمار حکومت پر اضافی بین الااقومی دباو¿ کا باعث بن سکتا ہے جو پہلے سے ہی عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی سے متعلق الزامات کا سامنا کررہی ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپ اور قانون ساز مل کر ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ پر یہ اقدام کرنے کیلئے دباو¿ ڈال رہے ہیں۔ کانگریس کے ایک رکن جیف مرکلے نے متوقع اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بائیڈن انتظامیہ کی تعریف کرتا ہوں کہ آخرکار روہنگیا کےخلاف ہونےوالے مظالم کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ محکمہ خارجہ کے اعلان کے فوری بعد جاری ہونےوالے ایک بیان میں بلنکن ہیر کو ہولوکاسٹ میوزیم میں میانمار میں ہونےوالے مظالم کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کریں گے اور ’میانمار نسل کشتی کا راستہ‘ کے عنوان پر مبنی نمائش کا دورہ بھی کریں گے۔ انسانی ہمدردی کے کام کرنےوالے گروپ ریفیوجیز انٹرنیشنل نے بھی اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ ’امریکہ کی جانب سے نسل کشی کو تسلیم کرنے کا اعلان ایک خوش آئند ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کیلئے انصاف کے عزم کی ٹھوس علامت بھی ہے جو آج تک فوجی حکومت کے ہاتھوں زیادتیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اگست 2017 سے اب تک 7 لاکھ سے زائد زائد روہنگیا مسلمان بدھ مت کی اکثریت والے ملک سے بھاگ کر بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔