ہم نے اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک کے قوانین کا بھی مطالعہ کیا: ٹاسک کمیٹی چیرپرسن
نئی دہلی(یو این آئی) لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی سفارش کرنے والی ٹاسک کمیٹی کی چیئرپرسن کا خیال ہے کہ یہ تجویز لڑکیوں کی بہتری کیلئے ہے اور اس کا مقصد سیاسی فائدہ یا مذہبی معاملات میں قطعاً کوئی مداخلت نہیں ہے ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو ان سفارشات پر عمل درآمد یا ترمیم کا حق حاصل ہے۔ ٹاسک کمیٹی کی رپورٹ کو مرکزی کابینہ نے منظوری دےدی ہے اور اس سے متعلق ایک بل تیار کیا گیا ہے ۔ اسے پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس میں پیش کئے جانے کا امکان ہے ۔ رپورٹ پر کابینہ کی منظوری کے بعد کچھ سیاسی اور کئی مذہبی تنظیموں نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے ۔ 15 اگست 2020 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر میں تبدیلی کے لیے قانون بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد جنوری میں محترمہ جیٹلی کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی میں محترمہ جیٹلی کے علاوہ نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر، احمد آباد کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر دیپتی شاہ اور وسودھا کامت کے علاوہ کئی قانونی اور طبی ماہرین بھی شامل تھے ۔ یو این آئی سے خصوصی بات چیت کے دوران محترمہ جیٹلی نے کہاکہ ہم نے اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک کے قوانین کا بھی مطالعہ کیا، جن میں ترقی پذیر، ترقی یافتہ، پسماندہ اور کئی مغربی ممالک شامل ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی عمر برابر ہے اور بیشتر ممالک میں 18 سال سے اوپر اور کئی ممالک میں 21 سال ہے ۔ اس سے پہلے 1978 میں مرارجی دیسائی حکومت کے دوران شاردا ایکٹ میں تبدیلی کرکیلڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھا کر 18 سال کر دی گئی تھی۔ 1929 میں بنائے گئے شاردا قانون میں لڑکوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال اور لڑکیوں کے لیے 14 سال مقرر کی گئی تھی۔ اب 40 سال بعد ملک اور معاشرے کے حالات اور ضروریات بدل چکی ہیں۔