راہل گاندھی نے کہا کہ میں ’ہندو‘ ہوں لیکن ہندوتوادی نہیں ہیں۔ یہ سب ہندو ہیں لیکن ہندوتوادی نہیں ہیں۔ آج میں آپ کو ہندو لفظ اور ہندوتوادی لفظ کے درمیان کا فرق ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔کانگریس پارٹی نے آج راجستھان کی راجدھانی جے پور میں عظیم الشان ’مہنگائی ہٹاو ریلی‘ کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر راہل گاندھی نے مہنگائی کی وجہ ہندوتوادی قوتوں کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوتوادیوں کو کسی بھی حال میں صرف اقتدار چاہیے یہی وجہ کہ ان کی عوامی مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ ملک کی حالت آپ سب کو نظر آ رہی ہے۔ ریلی مہنگائی کے بارے میں ہے۔ بے روزگاری کے بارے میں ہے۔ جو عام لوگوں کو درد ہو رہا ہے، تکلیف ہو رہی ہے، اس کے بارے میں ہے۔ ملک کی آج جو حالت ہے شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ پوری کی پوری دولت چار پانچ سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے۔ ہندوستان کے سبھی انسٹی ٹیوشنز ایک تنظیم کے ہاتھ میں ہے۔ وزیر کے دفتر میں آر ایس ایس کے او ایس ڈی بیٹھے ہیں۔ ملک کو عوام نہیں چلا رہی ہے، ملک کو تین چار سرمایہ دار چلا رہے ہیں۔ اور ہمارے وزیر اعظم جی ان کا کام کر رہے ہیں۔
نوٹ بندی ہوئی، جی ایس ٹی نافذ کی گئی، سیاہ قوانین بنائے گئے، اور کورونا کے وقت آپ نے ملک کے عوام اور ملک کی حالت دیکھی۔ لیکن ان چیزوں پر بولنے سے پہلے میں آج آپ سے ایک دوسری بات کرنا چاہتا ہوں۔ ملک کے سامنے کون سی لڑائی ہے اور لڑائی کس کے درمیان میں ہے، کون سے نظریات کے درمیان میں ہے۔ 5 منٹ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں، پھر اس کے بعد مہنگائی، سیاہ قوانین کے بارے میں، بے روزگاری کے بارے میں کھل کر آپ سے بولوں گا۔آپ جانتے ہیں کہ دو جانداروں کی ایک روح نہیں ہو سکتی۔ ویسے ہی دو الفاظ کا ایک ہی مطلب نہیں ہو سکتا۔ ہر لفظ کا الگ مطلب ہوتا ہے۔ ملک کی سیاست میں آج دو لفظوں کی ٹکر ہے۔ دو الگ الگ الفاظ کی۔ ان کے مطلب الگ ہیں۔ ایک لفظ ’ہندو‘ اور دوسرا لفظ ’ہندوتوادی‘۔ یہ ایک چیز نہیں ہے، یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں، اور ان کا مطلب بالکل الگ ہے۔ میں ’ہندو‘ ہوں لیکن ہندوتوادی نہیں ہیں۔ یہ سب ہندو ہیں لیکن ہندوتوادی نہیں ہیں۔ آج میں آپ کو ہندو لفظ اور ہندوتوادی لفظ کے درمیان کا فرق ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔بھائیو اور بہنو! مہاتما گاندھی ’ہندو‘، گوڈسے ’ہندوتوادی‘۔ فرق کیا ہوتا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے ’ہندو‘ سچ کو تلاش کرتا ہے۔ مر جائے، کٹ جائے، پِس جائے، ہندو ہمیشہ سچ کو ڈھونڈتا ہے۔ اس کا راستہ ’ستیہ گرہ‘… پوری زندگی وہ سچ کو ڈھونڈنے میں گزار دیتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے بایوگرافی لکھی ’مائی ایکسپریمنٹس وِتھ ٹروتھ‘۔ یعنی پوری زندگی انھوں نے سچ کو سمجھنے کے لیے، سچ کو ڈھونڈنے کے لیے گزار دی۔ اور آخر میں ایک ہندوتوادی نے ان کے سینے پر تین گولی مار دیں۔بھائیو اور بہنو! ہندوتوادی اپنی پوری زندگی اقتدار کو تلاش کرنے میں لگا دیتا ہے۔ اس کو سچ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اسے صرف اقتدار چاہیے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر ڈالے گا۔ کسی کو مار دے گا، کچھ بھی بول دے گا، جلا دے گا، کاٹ دے گا، پیٹ دے گا، مار دے گا… اسے اقتدار چاہیے۔ اس کا راستہ ’ستیہ گرہ‘ نہیں، اس کا راستہ ’ستّا گرہ‘ (اقتدار حاصل کرنا) ہے۔بھائیو اور بہنو! ہندو اپنے خوف کا سامنا کرتا ہے۔ ہندو کھڑا ہو کر اپنے ڈر کا سامنا کرتا ہے اور ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتا ہے۔ وہ شیو جی کی طرح اپنے ڈر کو نگل جاتا ہے، پی لیتا ہے۔ ہندوتوادی اپنے ڈر کے سامنے جھک جاتا ہے۔ اپنے خوف کے سامنے پیشانی جھکا دیتا ہے۔ ہندوتوادی کو اس کا ڈر ڈوبا دیتا ہے، اور اس ڈر سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اس ڈر سے غصہ آتا ہے۔ ہندو ڈر کا سامنا کرتا ہے۔ اس کے دل میں سکون پیدا ہوتا ہے، محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اندر طاقت پیدا ہوتی ہے۔بھائیو اور بہنو، ہندوتوادی اور ہندو کے درمیان میں یہی فرق ہے۔ میں نے یہ سب آپ کو کیوں بتایا، اس لیے کہ آپ ہندو ہو ہندوتوادی نہیں۔ اور یہ ملک ہندووں کا ملک ہے، ہندوتوادیوں کا نہیں۔ آج اگر اس ملک میں مہنگائی ہے، درد ہے، تکلیف ہے تو یہ کام ہندوتوادیوں نے کیا ہے۔ ہندوتوادیوں کو کسی بھی حالت میں اقتدار چاہیے۔جیسا کہ مہاتما گاندھی نے کہا کہ میں سچائی چاہتا ہوں، سچائی ڈھونڈتا ہوں، مجھے اقتدار نہیں چاہیے۔ ویسے ہی یہ (ہندوتوادی) کہتے ہیں کہ مجھے اقتدار چاہیے، سچائی سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں۔ اور جان لیجیے کہ 2014 سے ہندوتوادیوں کا راج ہے، ہندووں کا نہیں۔ ہمیں ایک بار پھر ان ہندوتوادیوں کو باہر نکالنا ہے اور ایک بار پھر ہندوو?ں کا راج لانا ہے۔ ہندو کون؟ وہ جو سب سے گلے لگتا ہے۔ ہندو کون؟ جو کسی سے نہیں ڈرتا ہے۔ ہندو کون؟ وہ جو ہر مذہب کا احترام کرتا ہے۔ آپ ہماری کوئی بھی کتاب پڑھ لیجیے، رامائن پڑھیے، مہابھارت پڑھیے، گیتا پڑھیے، ا±پنشد پڑھیے… مجھے دکھا دیجیے کہ کہاں لکھا ہے کسی غریب کو مارنا ہے، کسی غریب شخص کو کچلنا ہے۔ کہاں لکھا ہے مجھے دکھا دیجیے، کہیں نہیں لکھا ہے۔ گیتا میں لکھا ہے سچ کی لڑائی لڑو، مر جاو? کٹ جاو? لیکن سچ کی لڑائی لڑو۔ گیتا میں کرشن جی نے ارجن سے یہ نہیں کہا کہ اپنے بھائیوں کو اقتدار کے لیے مارو۔ کرشن نے ارجن سے کہا کہ اپنے بھائیوں کو سچائی کے لیے مارو۔ یہ لڑائی آج ہندوستان میں چل رہی ہے۔یہ جھوٹے ہندو ایک طرف جو ہندوتوادی ہیں، اور دوسری طرف سچے ہندو، پیار والے ہندو، بھائی چارے والے ہندو سب کی عزت کرنے واے ہندو۔ اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہوا کیا! کیونکہ ہماری عوام کو پتہ ہی نہیں چلا کہ آخر ہوا کیا؟ چھوٹی سی مثال دیکھیے۔ آج ہندوستان کی ایک فیصد آبادی کے ہاتھ میں ہندوستان کی 33 فیصد دولت ہے۔ 10 فیصد آبادی کے ہاتھ میں 65 فیصد دولت، اور سب سے غریب 50 فیصد آبادی کے ہاتھ میں 6 فیصد دولت۔ بھائیو اور بہنو! نریندر مودی جی نے ہندوستان کے سب سے غریب 50 فیصد کے ہاتھ میں اس ملک کی صرف 6 فیصد دولت چھوڑی ہے۔ یہ جادو کیسے کیا؟ اس جادو کے کون سے اوزار تھے؟ اور اس جادو کو کس نے کیا میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اوزار… نوٹ بندی، جی ایس ٹی، کسان کے خلاف تین سیاہ قوانین۔بھائیو اور بہنو! نریندر مودی کے آنے سے پہلے ہندوستان کا جو غیر منظم سیکٹر تھا، چھوٹے دکاندار، غریب لوگ، چھوٹی کمپنی والے جو گھر میں اگربتی بناتے تھے۔ چپل بناتے تھے، جوتا بناتے تھے، کپڑے سیتے تھے، کسان جو منظم نہیں تھے… مودی جی کے آنے سے پہلے غیر منظم سیکٹر کا حصہ 52 فیصد ہوا کرتا تھا۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، سیاہ قوانین اور کورونا کے بعد غیر منظم سیکٹر کا حصہ 20 فیصد تک پہنچ گیا۔بھائیو اور بہنو! ہندوستان کا 90 فیصد فائدہ 20 کمپنیوں کو جاتا ہے۔ یہ جو آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں نہ، یہ جو اس ریلی کو پانچ منٹ کے لیے دکھائیں گے، یہ ان کے غلام ہیں۔ بھائیو اور بہنو! یہ (غریب لوگ) ہندوتوادی نہیں ہیں، یہ ہندو ہیں لیکن ان کو دبایا گیا ہے۔ ہندوتوادیوں نے ان بے چاروں کو دبا دیا ہے۔ لیکن ہندو کو نہیں دبایا جا سکتا۔ کبھی ایسا کیا ہی نہیں جا سکتا، تین ہزار سال میں نہیں ہوا، آج بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہم کسی سے نہیں ڈرتے، ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ تو نریندر مودی اور ان کے تین چار صنعت کاروں نے، ہندوتوادیوں نے اس ملک کو 7 سال میں برباد کر دیا۔ ہم نے کسانوں کا قرض معاف کیا، ہم نے بات کو سمجھا کہ کسانوں کو قرض معافی کی ضرورت ہے ہم نے ایسا کیا۔ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بیٹھے ہیں، کمل ناتھ جی بیٹھے ہیں، چنّی جی بیٹھے ہیں… ہر ریاست میں ہم نے قرض معافی کی۔ کیوں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کسان اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ نریندر مودی جی نے کسانوں کی جو روح ہے، ان کا جو دل ہے… اسی میں چاقو مار دیا۔ وہ بھی آگے سے نہیں پیچھے سے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ہندوتوادی ہیں۔ ہندو اگر ہوتا تو آگے سے مارتا، ہندوتوادی ہے تو پیچھے سے چھرا مارا… اور پھر کہتے ہیں کہ جب ہندو کسان ہندوتوادی کے سامنے کھڑا ہوا تو ہندوتوادی نے کہا کہ ’میں معافی مانگتا ہوں، میں معافی مانگتا ہوں‘۔ 700 کسان شہید ہوئے۔ یہاں ہم نے 2 منٹ خاموشی اختیار کی، پارلیمنٹ میں خاموشی اختیار نہیں کرنے دی۔ میں نے کہا کہ آپ نہیں کرنا چاہتے تو میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ اپوزیشن کے لوگ دو منٹ کھڑے ہو گئے، لیکن انھوں نے خاموشی اختیار نہیں کی۔چنّی جی سے آپ پوچھیں گے تو پتہ چلے گا کہ 400 کسان کنبوں کو پنجاب کی حکومت نے 5 لاکھ روپے دیئے۔ اور ان میں سے 152 کو روزگار دلوا دیا ہے اور باقی کو ہم روزگار دینے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت پارلیمنٹ میں کہتی ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کون سے کسان مرے۔ ہمارے پاس لسٹ ہی نہیں ہے۔ کوئی کسان مرے ہی نہیں۔ یہ بات انھوں نے پارلیمنٹ میں کہی۔ میں نے پنجاب کی لسٹ لی، ہریانہ سے 80-70 نام لیے… 500 لوگوں کے نام میں نے پارلیمنٹ میں رکھے اور کہا کہ پنجاب کی حکومت نے معاوضہ دیا ہے، آپ بھی دے دیجیے۔پہلے پیچھے سے چھرا گھونپا، معافی مانگی، اور جب معاوضہ دینے کی بات آئی… 5 لاکھ، 10 لاکھ 25 لاکھ دینے کی بات آئی تو نریندر مودی نہیں دے سکتے، کیونکہ وہ کسان مرے ہی نہیں… وہ شہید ہی نہیں ہوئے۔ یہی سوچ ہے ہندوتوادیوں کی۔ چین کی فوج ہندوستان کے اندر آ جائے گی، 1000 کلومیٹر لے جائے گی اور وزیر اعظم کہیں گے کہ ہمارے ملک کے اندر کوئی نہیں آیا۔ پھر وزارت دفاع کہے گی کہ چین ہمارے ملک کے اندر آ گئی، چین کی فوج ہمارے ملک کے اندر ہے۔بھائیو اور بہنو! کچھ چیزیں میں آپ کو پڑھ کر بتانا چاہتا ہوں۔ گیس سلنڈر 2014 میں 414 روپے، 2021 میں 900 روپے، یعنی 117 فیصد اضافہ۔ پٹرول 2014 میں 70 روپے، آج 100 روپے۔ ڈیزل 2014 میں 60 روپے، آج 90 روپے۔ چینی 2014 میں 30 روپے، آج 50 روپے۔ 2014 میں گھی 350 روپے لیٹر، آج 650 روپے لیٹر۔ آٹا 15 روپے، آج 30 روپے۔ دال 70 روپے آج 190 روپے۔ اچھے دن آ گئے۔ کس کے اچھے دن آ گئے؟ ہم دو ہمارے دو… ان کے۔ ائیرپورٹ دیکھو، پورٹ دیکھو، کوئلہ کان دیکھو، ٹیلی فون دیکھو، سپر مارکیٹ دیکھو… جہاں بھی دیکھو دو لوگ ملیں گے آپ کو اڈانی جی، امبانی جی۔ ان کی غلطی نہیں ہے۔ دیکھو بھائی، اگر آپ کو کوئی مفت میں کچھ دے، تو کیا واپس دے دو گے؟ نہیں دو گے۔ ان کی غلطی تھوڑے ہے، غلطی وزیر اعظم جی کی ہے۔ 24 گھنٹے یہی سوچتے ہیں، صبح میں اٹھتے ہی کہتے ہیں کہ آج اڈانی-امبانی کو کیا دیں! چلو آج ائیرپورٹ دے دیتے ہیں، چلو آج کسانوں کے کھیت دے دیتے ہیں۔ چلو آج کوئلہ کان دے دیتے ہیں۔ ایسے ملک نہیں چلایا جاتا ہے۔ ملک غریبوں کا ہے، کسانوں کا ہے، مزدوروں کا ہے، چھوٹے دکانداروں کا ہے، اسمال-میڈیم بزنس والوں کا ہے… کیوں؟ کیونکہ یہی لوگ ملک کو روزگار دے سکتے ہیں۔ امبانی جی کی جگہ ہے، اڈانی جی کی جگہ ہے لیکن وہ روزگار پیدا نہیں کر سکتے ہیں۔ روزگار ہمارا کسان پیدا کرتا ہے، روزگار چھوٹے کاروباری پیدا کرتے ہیں، چھوٹا دکاندار پیدا کرتا ہے۔ چھوٹے کاروباریوں کو تو آپ نے ختم کر دیا۔بھائیو اور بہنو! ایک فیصد آبادی کے پاس 33 فیصد دولت، 10 فیصد آبادی کے بعد 65 فیصد دولت، 50 فیصد آبادی کے پاس 6 فیصد دولت… یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہندوستان کو اس حملہ کے خلاف کھڑا ہونا ہی پڑے گا۔ اور آپ دیکھیے گا، یہ ملک ایک آواز سے کھڑا ہوگا۔ راجستھان ایک آواز سے کھڑا ہوگا، اور نریندر مودی جی کو راستہ دکھائے گا۔ کورونا ہوا تو باقی ممالک نے اپنے لوگوں کی جیب میں پیسہ ڈالا۔ نریندر مودی جی نے پانچ دس کروڑپتیوں کا ٹیکس معاف کیا، ان کی جیب میں پیسہ ڈالا۔ اور مزدوروں کو ٹرین چھوڑیے، بس بھی نہیں دی۔ پیدل ہزاروں کلومیٹر چلے۔ 200-100 لوگ سڑک پر مر گئے۔ نریندر مودی جی نے کہا تھالی بجاﺅ، موبائل فون کی لائٹ جلاو، مر جاو۔آئیے روزگار کی بات کرتے ہیں۔ آج 60 سال میں سب سے زیادہ بے روزگاری ہے۔ کیوں؟ کیونکہ آپ نے روزگار دینے والی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ آپ نے ڈیمونیٹائزیشن کیا، جی ایس ٹی، نوٹ بندی، کورونا میں آپ نے چھوٹے کاروباریوں کو حمایت نہیں دی، سب ختم ہو گئے۔ روزگار کہاں سے پیدا ہوگا۔ روزگار دو تین صنعت کار پیدا نہیں کر سکتے۔ روزگار لاکھوں دکاندار، لاکھوں چھوٹے کاروباری، کروڑوں کسان پیدا کرتے ہیں۔ یہی سچائی ہے ملک کی۔ اور ملک کو یہ سچائی پہچاننی پڑے گی، اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بولنے والا… میں ہندوتوادی نہیں ہوں، میں ہندو ہوں۔ میں ڈرتا نہیں ہوں، اقتدار ملے یا نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میں سچائی کے راستے سے نہیں ہٹنے والا۔ لیکن سچائی ملک کو پہچاننی پڑے گی۔ چین نے ارونچل میں، لداخ میں ہماری زمین لی ہے۔ مودی جی کہتے ہیں کچھ نہیں ہوا۔ 700 کسان شہید ہوئے، مودی جی کہتے ہیں کچھ نہیں ہوا۔ بہت کچھ ہوا ہے۔ بہت لوگوں کو چوٹ لگی ہے۔ بہت لوگوں کی جان گئی ہے۔ بہت د±کھ ہوا ہے۔ اور اب ملک کو آگے بڑھنا پڑے گا۔ اور یہ ملک ایک ساتھ آگے بڑھے گا۔آپ دور دور سے میری بات سننے کے لیے آئے، اچھا لگا۔ آپ ہیں کانگریس پارٹی کی طاقت۔ آپ ہیں اس ملک کی سچائی۔ آپ لڑتے ہیں ملک کے لیے۔ ڈرو مت، ڈرو مت، ڈرو مت… کوئی ضرورت نہیں ڈرنے کی۔ دل سے آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔