ہریسہ شدید سردی میں سہارا،مقبول ترین اور ذائقہ دار کھانا
سرینگر/24 نومبر/ ان دنوں کشمیر کے پ±رانے شہر میں موجود ہریسہ کے دکانوں پر لوگوں کی اسی طرح کی بھیڑ دیکھنے کو ملتی یے۔لوگ صبح سویرے ذائقہ دار پکوان کھانے کے لیے ہریسہ کے دکانوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے کام کاج پر جانے سے قبل بدن میں حرارت پیدا کرنے کی خاطر گرم گرم ہریسہ کھانے کو ترجیحی دیتے ہیں۔وائس آف انڈیا کے مطابق کشمیری ہریسہ شدید سردی میں سہارااس ڈیڑھ سو سالہ پرانے ہریسہ کے دکان مالک محمد شفع بٹ اور ان کا بیٹا ہر روز صبح چار بجے جاگتے ہیں تاکہ لذید روایتی ہریسہ تیار کرسکیں۔ہریسہ دراصل سردیوں کا پکوان ہے جو کہ چاول اور دنبے کے گوشت کو پیسٹ کی شکل میں پیس کر تیار کیا جاتا ہے اور اس سے پھر روایتی کشمیری روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ محمد شفیع بٹ کہتے ہیں کہ یہ 24 گھنٹے کا محنت طلب کام ہے جو کہ میرے والد سے قبل دادا کیا کرتے تھے۔ یوں تو کشمیر میں شدید سردیوں کے دوران بیشتر لوگ مختلف اقسام کے پکوان تیار کرتے ہیں۔ لیکن ان پکوانوں میں ہریسہ مقبول ترین اور ذائقہ دار کھانا تصور کیا جاتا یے۔گھر پر پکائے گئے یا اس طرح کے دکانوں پر ہریسے کو نشاتے میں کھانے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔اگرچہ ہریسہ روزانہ کی پکوان میں شامل نہیں ہے اور جابجا ہی سرما کے دوران کھایا جاتا ہے۔تاہم فتح کدل علاقے کے رہنے 70 سالہ عبدالرحمان بیگ شدید ٹھنڈ کے ان ایام کے دوران روزانہ ہریسہ کھانے کے لیے اس دکان پر پہنچ جاتے ہیں۔کشمیر میں روایتی ہریسہ سرینگر کے پائین شہر کے علاقوں میں تیار کیا جاتا ہے جن میں زینہ کدل،عالی کدل،صراف کدل،نواکدل اور فتح کدل قابل ذکر ہیں۔ایسے میں فتح کدل میں قائم اس دکان پر نہ صرف ذائقے سے بھر پور ہریسہ ملتا ہے بلکہ یہاں ہریسہ بھیٹ کر پیش کرنے کی روایت کو بھی بر قرار رکھا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے علاوہ دوردراز علاقوں سے بھی لوگ یہاں ہریسہ کا مزا لینے کے لیے آتے رہتے ہیں اور جو اس دکان پر ہریسہ کھاتے ہیں وہ گھر والوں کے لیے ہریسہ لیجانا بھولتے نہیں ہیں ’خیام‘ سرینگر میں مشہور کیوں کشمیر کو ایران صغیر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی تہزیب اور ثقافت پر وسطی ایشاءاور ایران کے گہرے اثرات مرتب ہیں۔کہا جاتا ہے کہ صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی (رح) جب کشمیر آئیے تو ان کے رفقا ہریسہ بنانے کا یہ فن جانتے تھے۔