اینڈ ڈی آر ایف، پولیس اور رضاکاروں کی جانب سے تلاش جاری ، علاقہ میں ہر سو آہو بقاءکی صدائیں
سرینگر/سرینگر کے بٹوارہ گنڈبل علاقے میں منگل کے روز پیش آئے حادثے میں لاپتہ ہوئے افراد کو ڈھونڈنے کےلئے بدھ کو صبح ہی سے آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا تاہم 2معصوم بچوں سمیت تین افراد کی لاشیں ابھی بازیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اس بیچ علاقہ میں آہ و بقا ءکا عالم ہے اور جگر سوز صدائیں فضاءمیں گونج رہی ہیں۔ وائس آف انڈیا کے مطابق دریائے جہلم سے باپ بیٹے سمیت تین افراد کی لاشیں نکالنے کے لیے سرچ آپریشن بدھ کی صبح دوبارہ شروع ہوا۔منگل کو گنڈ بل بٹوارہ میں دریائے جہلم میں تقریباً 19 افراد کو لے جانے والی کشتی ڈوبنے کے بعد شروع ہونے والا ریسکیو آپریشن کل دیر رات اندھیرے کی وجہ سے روک دیا گیاتھا جس کو آج دوبارہ شروع کیا گیا ۔ اس سانحے میں چھ افراد ڈوب کر ہلاک اور دس افراد زندہ بچ گئے۔ تاہم مقامی لوگوں کے مطابق تین افراد ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔لاشوں کو نکالنے کے لیے ایس ڈی آر ایف، این ڈی آر ایف، پولیس، فوج کے علاوہ دیگر افراد کی ٹیمیں جو پانی سے لاشوں کو نکالنے میں مہارت رکھتی ہیں، اس آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیںذرائع نے بتایا کہ ریسکیو آپریشن اس وقت دریائے جہلم کے متعدد مقامات پر جاری ہے اور مختلف مقامات کی مکمل چھان بین کی جا رہی ہے تاکہ کشتی الٹنے کے بعد لاپتہ ہونے والے افراد کی لاشیں نکالی جا سکیں۔جن افراد کی لاشیں جہلم سے برآمد ہونا باقی ہیں ان میں ایک شخص شوکت احمد شیخ ولد عبدالغنی اور دو اسکولی بچے -حاذق شوکت ولد شوکت احمد اور فرحان وسیم پرے شامل ہیں – تمام گنڈبل، سری نگر کے رہنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز یعنی منگل کو بٹواہ گنڈہ بل میں منگل کی صبح اُس وقت قیامت صغریٰ بپا ہوئی جب 20افراد پر مشتمل ایک کشتی دریائے جہلم میں ڈوب گئی جس کے نتیجے میں کشتی میں سوار سکولی بچوں سمیت 6افراد کی موت واقع ہوئی ہے جبکہ تین ہنوز لاپتہ ہے اور پانے میں بہنے والے 10افراد کو بچالیا گیا ہے ۔ واقعے کے فورا بعد ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران کے ساتھ ساتھ این ڈی آر ایف کی ٹیموں نے بچاﺅ کارروائیاں شروع کیں۔ عین شاہدین کا کہنا ہے کہ کشتی میں ایک درجن کے قریب طلبا سمیت 19افراد سوار تھے جن میں سے کشتی بان، خاتون سمیت تین افراد کسی طرح دریا کے کنارے پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔عین شاہدین نے بتایا کہ صبح سات بجکر 30منٹ پر گنڈ بل کے مقام پر ایک کشتی جس میں ایک درجن کے قریب طلبا ،مزدور اور دیگر افراد شامل تھے اچانک پانی میں الٹ گئی جس کی وجہ سے کشتی میں سوار سبھی افراد ڈوب گئے۔انہوں نے بتایا کہ کشتی بان، خاتون سمیت تین افراد کسی طرح دریائے جہلم کے کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تاہم کشتی میں سوار دیگر افراد کو پانی کے تیز بہاو نے بہا کر لیا۔عین شاہدین نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ کشتی میں لگ بھگ 20سے 25افراد سوار تھے جن میں 8سے 12طلبا، مزدور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صبح ساڑھے سات بجے واقع پیش آنے کے باوجود بھی ضلعی انتظامیہ سے وابستہ آفیسران اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیمیں دس بجے جائے موقع پر پہنچے۔سٹی رپورٹر نے بتایا کہ پانی میں غرقآب ہوئے سات افراد کو فوری طورپر صدر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم ڈاکٹروں نے دو بھائیوں سمیت چھ کو مردہ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ گیارہ بجے کے قریب دو بھائیوں کی لاشیں آبائی علاقے پہنچائی گئی تاہم ان کی ماں بھی پانی میں غرقآب ہوئی اور ابھی تک اس کا کئی پر اتہ پتہ نہیں چل سکا ہے۔ادھر متوفین کی شناخت شبیر احمد بھٹ ولد بشیر احمد بٹ سکنہ گنڈ بل، رضیہ ولد غلام محمد گوجری سکنہ گنڈ بل، گلزار احمد ڈار ولد محمد جمال ڈار سکنہ گنڈ بل، فردوسہ دختر فیاض احمد ملک ساکن گنڈ بل، تنویر فیاض ولد فیاض ملک ساکنہ شیو پورہ، مدثر فیاض ولد فیاض ملک سکنہ شیو پورہ کے طور پر ہوئی ہے۔جبکہ مسرت بیگم ولد وسیم احمد پارے سکنہ گنڈ بل، ارشادہ بلال ولد بلال احمد زرگر سکنگ گنڈبل ، غلام نبی خان سکنہ برین نشاط ح گنڈبل، معراج الدین ڈار ولد عبد الخالق سکنہ گنڈیل، نور محمد عرف بند ولد عبد الخالق سکنہ گنڈ بل، عائشہ دختر بلال احمد زرگر سکنہ گنڈ بل، انشاء بلال دختر بلال احمد زرگر ، حمر یادختر شبیر احمد شیخ سکنہ گند بل، محمد رفیق بھٹ ولد محمد یوسف بھٹ سکنہ گنڈیل اور مشتاق احمد شیخ صلوح قادر سکنہ گنڈیل کو بچالیا گیا ہے۔ فرحان و سیم پرے ولد ار تیاز بھٹ سکنہ گنڈ بل، حاذق شوکت ولد شوکت احمد سکنہ گنڈ بل اور شوکت احمد شیخ ولدعبد الغنی سکنہ گنڈ بل ہنوز لاپتہ ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سانحہ کے بعد مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ متعلقہ محکمہ کی غفلت اور لا پرواہی کے نتیجے میں انسانی جانی ضائع ہوئیں ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ پندرہ برس قبل علاقے میں فٹ برج پر کام شروع کیا گیا جو آج تک مکمل نہ ہو سکا۔ انہوں نے بتایا کہ پل کی تعمیر کا کام جلد از جلد مکمل کرنے کی خاطر اعلیٰ حکام کے پاس بھی گئے لیکن لوگوں کی آواز صدا بہ صحر الثابت ہوئی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ گنڈ تل میں فٹ برج کی تعمیر کی خاطر سابقہ حکومت نے 15 سال قبل تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا گیا لیکن آج تک پل کا کام مکمل ہی نہیں ہو پایا۔ انہوں نے کہا کہ پل کی تعمیر کا کام ادھورا چھوڑا گیا ہے جس وجہ سے مقامی لوگوں کو کشتیوں کے ذریعے ہی شیو پورہ اور بنوار و جانا پڑتا ہے جبکہ آرمی اسکول میں زیر تعلیم بچے بھی کشتیوں کے ذریعے ہی سونہ دار جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا غریبوں کی کوئی نہیں سنتا گزشتہ پندرہ برسوں سے فٹ برج کا کام مکمل نہیں ہو پایا، جب الیکشن قریب آتے ہیں تو لوگوں سے دعوئے اور وعدئے کئے جاتے ہیں لیکن لوگوں کی اس دیر یا نہ مانگ کو پورا کرنے میں ہمیشہ لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ انتظامیہ پل کی تعمیر کا کام پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔