سرینگر شہر کے نوشہرہ علاقے میں ایک لڑکی پر مبینہ طور پر تیز آب پھینکنے والے شخص کے خلاف عدالتی کارروائی حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور گزشتہ نو برسوں کے دوران پولیس نے اس کیس میں 48گواہان بشمول عینی شاہدین کو عدالت میں پیش کیا ہے اور اس کیس کا فیصلہ19اگست کو سنایا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق سرینگر کے نوشہرہ علاقے میں نو سال قبل 2014میں ایک طالبہ پر ایک شخص نے مبینہ طور پر تیزآب پھینکا جس سے وہ جھلس گئی اور اسکی ایک آنکھ بینائی سے بھی محروم ہوئی ۔پولیس نے تیز آب پھینکنے والوں کے خلاف تحقیقات شروع کی اور اُس وقت کے ایس پی حضرتبل رئیس احمد نے اس ضمن میں ایک ٹیم تشکیل دی جنہوں نے اس جرم میں ملوث شخص کی شناخت کرکے اس کو گرفتار کرلیا جبکہ اس واقعے میں ایک اور نوجوان کو بھی پولیس نے حراست میں لیا ۔ پوچھ تاچھ کے عمل کے بعد 2015میں پولیس نے تیز آب پھینکنے والوں کے خلاف ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ میں چالان بھی پیش کیا۔2015میں اس وقت کے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے مزکورہ طالبہ کوعلاج کے لئے آل انڈیامیڈیکل سائنسز منتقل کیاجہاں اسکے علاج پر37لاکھ روپے خرچ کئے گئے ۔نوسال کے دوران پولیس نے 48گواہوں کوپیش کیا۔ عدالتی کارروائی قریب قریب حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور وکلاءکے مابین اس پر جرح اور جوابی جرح بھی مکمل ہوا ہے اور عدالت اپنا فیصلہ 19اگست کو سنائے گا۔ اس ضمن میں ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ دفعہ 326Aاور 126Bکے تحت اگر ملزمان پر جرم ثابت ہوتا ہے تو سزا کی مدت کم سے کم دس برس قید بامشقت یا عمر قید بھی ہوسکتی ہے ۔