24لاکھ کے قریب گاڑیاں رجسٹرسات برسوں کے دوران بارہ فیصد سڑکیں ہی تعمیر
سرینگر/ 15 دسمبر / جموںو کشمیر میں سات برسوں کے دوران 12لاکھ سے زیادہ چار پہیوں والی گاڑیوں میں اضافہ ہوا 42%گاڑیوں کی خریداری زیادہ ہوئی اور اس مدت کے دوران صرف 25%سڑکیں ہی تعمیر ہوئی سات سال پہلے جموںو کشمیر میں بارہ لاکھ کے قریب گاڑیاں رجسٹر تھی اور اس وقت 24لاکھ کے قریب گاڑیاں رجسٹر ہے ہرماہ دس ہزار سے زیادہ گاڑیاں خریدی جارہی ہے اور ایک سال میں ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب گاڑیاں جموںو کشمیرمیں خریدی جارہی ہے اگر ا ٓنے والے تین برسوں کے دوران یہ صورتحال رہی تو گاڑیاں میں سفر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا کیوں کہ ان گاڑیوں کودوڑانے کے لئے سڑکیں ہی دستیاب نہیں ہونگی ۔اے پی آ ئی نیوز ڈیسک کے مطابق جموں وکشمیرکی مجموعی آبادی ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب بتائی جارہی ہے ۔جموں وکشمیرمیں 12کلومیٹرسڑکیں تعمیر کی گئی تاہم گاڑیوں کی تعداد جورجسٹر ہوئی ہے کی تعداد 24لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے او ریہ تعداد سڑکوں کی مناسبت سے بہت زیادہ ہے ۔جموں وکشمیر میں سات سال پہلے صرف بارہ لاکھ کے قریب گاڑیاں رجسٹر تھی اور سات برسوں کے دوران13لاکھ گاڑیاں خریدی گئی اور ہر سال ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ گاڑیاں خریدی گی اور اس دوران اس بات کاقطعی خیال نہیں رکھاگیا کہ جس بڑے پیمانے پرگاڑیوں کی رجسٹریشن ہورہی ہے اس حساب سے سڑکیں دستیاب ہے یانہیں ۔جہاں ایک طرف گاڑیاں کی تعداد میں 42%کااضافہ ہواہے وہی ا س مدت کے دوران صرف بارہ فیصد سڑکیں تعمیر کی گئی ہے ۔جموںو کشمیرمیں ٹریفک حادثات کے دوران ہرسال 5ہزار کے قریب لوگوں کی جانیں ضائع ہوتی ہے اور ا سکی سب سے بڑی وجہ ٹریفک قوانین پرعمل در آمد نہیں ہورہاہے ۔آور ٹیکنگ آور لوڈنگ کی بدعت نے سنگین رُخ اختیار کیاہے اور جس بڑے پیمانے پرگاڑیاں رجسٹر ہورہی ہے وہ عام لوگوں اور سرکار کے لئے سنجیدہ معاملہ ہے جسکی طرف توجہ دینا لازمی ہے کہ جہاں ایک طرف ہرسال ایک لاکھ دس ہزار کے قریب گاڑیاں خریدی جارہی ہے اور دوسری جانب سڑکوں کی تعمیر ا سے تین گناہ زیادہ ہونی چاہئے جموںو کشمیر ملک کی ایسی واحد جگہ ہے جہاں دس سے بارہ ہزار کلوا میٹرکی سڑکیں تعمیرکی گئی ہے جہاں 24لاکھ کے قریب گاڑیاں رجسٹر ہوئی ا سکے بعد دو پہیوں والی اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال خریدی جارہی ہے سرکار جہاں گاڑیاں خریدنے کی لوگوں کواجازت دے رہی ہے بینکوں کے دروازے کھلے رکھے گئے ہے لیکن دوسری جانب سرکار کویہ بھی سوچناہوگا کہ جسکورہنے کے لئے گھرنہیں اگر اس کے پاس بھی گاڑی ہے تو اس گاڑی کووہ رکھے گا کہاں اور یہی حال بڑے شہروں قصبوں کاہے سات سے دس لاکھ کے قریب گاڑیاں سڑکوں چوراہوں گلی کوچوں میں پارک کی جاتی ہے اور ان گاڑیوںکے مالکان کواپنے گھر کے اندر اتنی بھی جگہ نہیں کہ اپنی گاڑی کورکھ سکے ۔کئی برس پہلے سرکار نے گاڑی خریدنے کے لئے ایک شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے ا س بات کی ضمانت کرے کہ وہ گاڑی کورکھے گا کہاں تاہم سرکار کے احکامات فائلوں تک محدود ہوجاتے ہے زمینی سطح پراس پرعمل درآمد ہونا جموںو کشمیرمیںشکل ہی نہیںناممکن ہے اور یہی وجہ ہے آج شہروں قصبوں میں ٹریفک جام سے لوگوں کوجوبرُا حال ہورہاہے ا سکی کہی مثال نہیں مل پارہی ہے ۔