سیاسی آزادی اور لاک ڈاو¿ن ختم کرنے کا مطالبہ کرنےوالے متعدد مظاہرین گرفتار
بیجنگ: ۸۲ نومبر (ایجنسیز) چین میں سیاسی آزادیوں اور کورونا وائرس سے بچنے کیلئے لاک ڈاو¿ن کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو سیکورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔ چین کے اہم شہروں میں ہزاروں افراد نے جامعات کے سامنےلاک ڈاو¿ن ختم کرنے اور سیاسی آزادی دینے کے لیے مظاہرے کیے، جہاں 1989 میں جمہوریت پسندوں کی طرف سے نکالی گئی ریلیوں کو کچلنے کے بعد پہلی بار مظاہرے شروع ہوئے ہیں۔ شمال مغربی چین کے علاقے ارومچی میں گزشتہ ہفتے ایک مہلک آگ سے عوامی ردعمل سامنے آیا جہاں بہت سے لوگوں نے کورونا وائرس سے متعلق لاک ڈاو¿ن کو ریسکیو عمل کی کوششوں میں رکاوٹ بننے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حکومت نے مہلک آگ کا ذمہ دار لاک ڈاو¿ن کو ٹھہرانے کا الزام کچھ خاص مقاصد والے افراد پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکام نے حقیقت واضح کرکے افواہوں کو مسترد کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین مظاہرین سیاسی آزادیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں سے کچھ تو چینی صدر کے استعفے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں جو کو حال ہی میں تیسری بار ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز دارالحکومت بیجنگ اور شنگھائی کے مرکز میں لوگوں کے بڑے ہجوم جمع ہوئے جہاں پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق اسی علاقے میں سیکڑوں افراد نے کاغذ کی خالی شیٹس اور پھولوں کے ساتھ ’خاموش‘ ریلی بھی نکالی۔ ادھر برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے کہا ہے کہ شنگھائی میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے ان کے صحافی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے مگر چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ رپورٹر نے خود کی شناخت نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق مظاہرین کو منتشر کرنے اور مزید ہجوم کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی جہاں پولیس نے تین مظاہرین کو گرفتار کرلیا جبکہ راہ گیر عام شہریوں کو تصاویر اور ویڈیو بنانے سے سختی سے روک دیا۔ چین میں سب سے پہلے کورونا وائرس کا شکار ہونے والے شہر ووہان میں بھی بڑے پیمانے پر لوگ مظاہروں کے لیے نکلے ہیں، جبکہ ہانگ کانگ سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ پابندیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔