واشنگٹن: ۲۱ نومبر (ایجنسیز) امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاو¿س نے یوکرین کی افواج کی جانب سے خیرسن کے علاقے کو روس سے واپس لینے کو سراہتے ہوئے اس کو ’غیرمعمولی فتح‘ قرار دیا ہے۔ امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ ایک غیرمعمولی فتح ہے کیونکہ ایک علاقائی دارالحکومت جو روسی افواج نے جنگ میں لے لیا تھا وہاں یوکرین کی فوج نے دوبارہ اپنا جھنڈا لگا دیا ہے۔ اور یہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔‘ امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر یوکرین کے فوجیوں کے خیرسن شہر میں داخل ہونے کے بعد بات کر رہے تھے جس پر روسی فوج نے کچھ عرصہ پہلے قبضے کیا تھا۔ کمبوڈیا میں آسیان کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے جیک سلیوان نے کہا کہ روسی پسپائی کے ’وسیع تر سٹریٹیجک اثرات‘ ہوں گے جن میں روس کی طرف سے دوسرے جنوبی یوکرینی شہروں جیسے اوڈیسا کے لیے طویل مدتی خطرے میں کمی بھی شامل ہے۔ سلیوان نے کہا کہ ’یہ ایک بڑا لمحہ ہے اور یہ یوکرین کے لوگوں کی ناقابل یقین استقامت اور مہارت کی وجہ سے ہے، جسے امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کی انتھک اور مستقل حمایت حاصل ہے۔‘ ان اطلاعات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ بائیڈن انتظامیہ نے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر ماسکو کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباو¿ ڈالنا شروع کیا ہے، سلیوان نے جواب دیا کہ یوکرین نہیں، روس وہ فریق تھا جس نے مذاکرات کی میز پر جانے سے انکار کیا تھا۔ ’مغربی میڈیا میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ یوکرین کب مذاکرات کرنے جا رہا ہے تو اس بنیادی چیز کو نظرانداز کر دیتا ہے۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ روس یوکرین کے مختلف علاقوں کی اپنے ساتھ خود ساختہ الحاق کے بارے میں دعوے کرتا ہے اور جب یوکرین فوج جوابی حملے کرتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ’یوکرین اس تنازع میں امن کا فریق ہے اور روس جنگ کا فریق ہے۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا، اگر روس نے یوکرین میں لڑائی بند کرنے کا انتخاب کیا اور چھوڑ دیا، تو یہ جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ اگر یوکرین نے لڑائی بند کرنے اور ہار ماننے کا انتخاب کیا تو یہ یوکرین کا خاتمہ ہوگا۔‘ امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے کہا کہ ’اس تناظر میں، ہماری پوزیشن وہی ہے جو پہلے تھی اور یہ بنیادی طور پر صدر زیلنسکی کی قریبی مشاورت اور حمایت میں ہے۔‘