انسانی اعضاءکا عطیہ انسانیت کے لیے سب سے بڑا طبی تحفہ ہے۔ یہ موت کو زندگی میں بدل دیتا ہے
انسانی اعضاءکے عطیہ کے عالمی دن کے موقع پر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کشمیرنے ہفتہ کو وادی کشمیر کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ انسانی اعضاءکے عطیہ کے لیے آگے آئیں اور جانیں بچائیں۔ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر نثار الحسن نے کہا کہ اعظاءکے عطیہ کی اہمیت کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹرنثارالحسن نے کہا کہ انسانی اعضاءکا عطیہ انسانیت کے لیے سب سے بڑا طبی تحفہ ہے۔ یہ موت کو زندگی میں بدل دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اعضاءکے عطیہ سے بہت سی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ڈاک کے صدر نے کہا کہ اگرچہ زندہ ڈونر ٹرانسپلانٹیشن کی کامیابی نے بہت سی زندگیوں کو بچایا ہے، کیڈورک (مرنے والے) اعضاءکے عطیہ نے اس منظر نامے کو بدل دیا ہے کیونکہ ہر ڈونر 8 مریضوں کو نئی زندگی دے گا۔انہوں نے کہا کہ اعضاءکے عطیہ کے لیے قانونی اور مذہبی حمایت کے باوجود وادی میں لوگ کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔اعضاءکے عطیہ کا عالمی دن ہر سال 13 اگست کو منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اعضاءکے عطیہ کے عظیم مقصد کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کریں۔ڈاکٹر نثار نے کہا کہ اعضاءکا عطیہ وہ عمل ہے جب کوئی شخص اپنے عضو کو ہٹا کر دوسرے شخص کو ٹرانسپلانٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ عطیہ کرنے والا زندہ یا مردہ ہوتا ہے اور قریبی رشتہ دار کی اجازت سے ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ اعضاءاور ٹشوز زندہ عطیہ دہندہ کے ذریعے عطیہ کیے جا سکتے ہیں جیسے کہ گردہ یا جگر کا حصہ، لیکن زیادہ تر عطیہ عطیہ کرنے والے کی موت کے بعد ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عام ٹرانسپلانٹس میں گردے، جگر، دل، پھیپھڑے، لبلبہ، آنتیں، جلد اور کارنیا شامل ہیں۔اس دوران ڈاک کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ارشد علی نے کہا کہ کشمیر میں SKIMS میں صرف ایک ٹرانسپلانٹ یونٹ ہے جو براہ راست متعلقہ گردے کی پیوند کاری میں شامل ہے۔ کیڈیورک ٹرانسپلانٹیشن نہیں کی جا رہی ہے کیونکہ کوئی ڈونرز نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ وادی میں اعضاءکی پیوند کاری کی کوئی دوسری سہولت نہیں ہے۔انہوںنے سرکار پر زور دیا کہ وادی کشمیر میں اعظاءکو محفوظ رکھنے اور منتقلی کےلئے صدر ہسپتال سمیت دیگر ہسپتالوں میں ٹرانسپلانٹ یونٹ کرنے کےلئے اقدامات اُٹھائے جائیں اور اعظاءکے عطیہ کےلئے سرکاری سطح پر بھی عوامی بیداری پیدا کی جائے ۔