کشمیر کی زمین زرخیز جو سونا دے سکتی ہے ۔ پدم شری رام چرن ورما کا کشمیری کاشتکاروں کومشورہ
سرینگر/07جنوری //پدم شری ایوارڈ یافتہ رام شرن ورمانے کشمیری کاشتکاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موسم کے لحاظ سے کاشتکاری میں اختراعی حکمت عملی کے تحت کاشتکاری کریں تاکہ موسم صورتحال کے دوران جو بہتر پیداواری فصل ہوگی اس پر توجہ دی جاسکے ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں صرف ایک قسم کی فصل پر توجہ نہیں دینی چاہئے بلکہ نئے نئے طریقے سے مختلف فصلوں کو اُگانے کی کوشش کریں ۔ وائس آف انڈیا کے مطابق معروف کاشتکار اور پدم شری ایوارڈ یافتہ رام شرن ورما نے کشمیری کاشتکاروں اور کسانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زرعی سیکٹر میں نئے تجربات کرتے ہوئے آگے بڑھیں ۔ انہوںنے بتایا کہ روایتی کاشتکاری سے ہٹ کراختراعی پالیسی اختیار کریں ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم موسم کے لحاظ سے اُسی فصل پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں جو زیادہ پیداوار دے سکتی ہے ۔ وکست بھارت سنکلپ یاترا کے دوران کشمیری صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پدم شری رامشرن ورما نے کہا کہ کشمیر کے کسانوں کو سرد موسم کی فصلوں پر توجہ دیتے ہوئے تنوع پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ورما نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ایک ایکڑ میں 150 کوئنٹل سے زیادہ کی پیداوار کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے 30 فیصد تک پانی کی بچت ہو رہی ہے اس کے علاوہ ان کے منافع میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ عام طور پر کسان کھیت میں آلو بونے کے بعد نالیاں بناتے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کی موٹائی تقریباً 12 سے 14 انچ رہ جاتی ہے۔ رام شرن ورما نے اب تک 50,000 سے زیادہ کسانوں کو نئی تکنیکوں اور کاشتکاری کے طریقوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔شری رام شرن ورماکہا کہ ایک کسان چار اقسام کی مختلف فصلیں اُگائے گا جو کہ موسمی کاشتکاری ہوگی تو اگر موسم کی صورتحال کی وجہ سے ایک فصل میں نقصان ہوگا تو دیگر تین فصلوں سے فائدہ ملے گا ۔ انہوںنے بتایا کہ کشمیر زر خیزعلاقہ ہے جہاں کی مٹی سونا دتے سکتی ہے لیکن اس کےلئے نامیاتی اور غیر رسائینک ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے تجربے کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ مختلف اقسام کی خاد اور دوائیاں استعمال کرنے سے زرعی اراضی کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے نامیاتی طریقہ کار ہی بہتر ہے ۔
اننت ناگ میں دریائے جہلم میں سینک