واشنگٹن،23 اگست (ایجنسیز) امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے افغان پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ کے افغان کے منجمد کردہ اثاثہ کودوبارہ ریلیز کرنے کے طالبان حکومت کے مطالبے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اشارہ دیا ہے کہ کابل میں القاعدہ کے مارے گئے رہنما کی موجودگی، طالبان اور افغان سینٹرل بینک کے رویے کے باوجود افغانستان کے غیر ملکوں میں موجود اربوں ڈالر کے منجمد اثاثوں کے اجرا سے متعلق مذاکرات اور بات چیت کو آگے بڑھائے گی۔ افغانستان کی تباہ شدہ معیشت کو بحال کرنے میں مدد کرنے کے اقدام پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ انسانی بحران سے متعلق واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے خدشات کو نمایاں کرتا ہے جب کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ موسم سرما کے قریب آتے ہی ملک کی تقریباً 4 کروڑ آبادی میں سے نصف افراد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔ میڈیا کی گزشتہ ماہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہ منصوبہ ہے کہ غیر ملکی قبضے میں موجود افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو مجوزہ سوئس ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کیا جائے ۔منصوبے کے تحت رقوم کا اجرا عالمی بورڈ کی مدد سے کیا جائے اور اس عمل میں طالبان کو نظرانداز کیا جائے جن میں سے بہت سے رہنما¶ں پر امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں عائد ہیں۔ طالبان نے جون کے آخر میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں ان تجاویز پر جوابی تجاویز پیش کیں۔ سی آئی اے کے ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے مارے جانے کے 12 روز بعد امریکی محکمہ خارجہ اور خزانہ کے 2 حکام نے 11 اگست کو ایک بریفنگ کے دوران نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آزاد تجزیہ کاروں کو بتایا تھا کہ وہ مذاکرات میں پیش رفت کی سست رفتارسے پیدا مایوسی کے باوجود بات چیت کو جاری رکھیں گے ۔ ذرائع کے مطابق امریکی عہیدار نے کہا کہ طالبان اور افغان مرکزی بینک (ڈی اے بی) تیزی سے کام نہیں کر رہے ، طالبان آرام سے بیٹھے ہیں جو کہ اشتعال انگیز طرز عمل ہے ۔محکمہ خارجہ نے اس بریفنگ سے متعلق کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جب کہ باخبر امریکی ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اس نے بریفنگ میں کی گئی