’ آپ سچ کو کب تک چھپائیںگے، آخر کار حقائق عوام کے سامنے آجائیںگے، اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں “
5اگست 2019کو جموں و کشمیر میں دفعہ 370کے خاتمے کی صورت میں سب کچھ ٹھیک ہوجانے کے اعلانات اور دعوے کئے گئے اور اس سلسلے میں ہمارے آئین کو ہٹایا گیا کی بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ہمار ریاست کے دو حصے کئے گئے، دونوں حصوں کو مرکزی زیر انتظام علاقے قرار دیئے گئے، ہمارے قانون ساز کونسل اور اسمبلی ختم کی گئی، جے کے کا پولیس کارڈر اور افسر کارڈر ختم کردیا گیا، لیکن اڑھائی سال گزر جانے کے بعد بھی ان اقدامات کو بخشے گئے جواز ثابت نہیں ہوئے ، کٹھوعہ سے لیکر کپوارہ تک کہیں بھی لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی ،اُلٹا زمینی سطح پر ان اقدامات کے منفی اثرات ہی مرتب ہوئے، جس کی وجہ سے لوگ مایوسی اور نااُمیدی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ آر سی گراﺅنڈ کپوارہ میں ضلع کے ورکروں کے ایک فقید المثال کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے ک ”خصوصی پوزیشن کے جبری خاتمے کے بعد ہم نے اپنے حقوق کی بحالی کیلئے آواز بلند کی، ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اس لڑائی میں سب کا شامل ہونا لازمی ہے اور ہمیں اوروں کو بھی اس لڑائی میں شامل کرنا ہوگا اور اس کیلئے ہم نے پارٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے گزارش کی کہ وہ ایک ایسی سٹیج قائم کریں جہاں تمام پارٹیاں متحد ہوکر جموں وکشمیر کے عوام کے حقوق کی بحالی کیلئے لڑیں۔ ہم اس میں اُن پارٹیوں کوبھی لایا جن کے ساتھ کام کرنے کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور ہم نے پی ڈی پی، پی سی، عوامی نیشنل کانفرنس، سی پی آئی ایم، سی پی ایم اور پیپلز مومنٹ جیسی جماعتوں کیساتھ اتحاد کیا۔ ہم نے سوچا کہ منزل تک پہنچنے کیلئے ہمیں آپس کی چھوٹی موٹی لڑائیوں کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اور ایک ساتھ مل کر لڑنے ہوگا تب جاکر شائد ہم اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے۔ یہ سب آسان نہیں تھا لیکن ہم جانتے تھے کہ منزل صحیح ہے اور مقصد تک پہنچنے کیلئے یہ ضروری قدم ہے ۔ “ انہوں نے کہا کہ گپکار الائنس کیلئے نیشنل کانفرنس نے بہت زیادہ قربانیاں پیش کیں ،ڈی ڈی سی انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے نشستوں کی تقسیم میں سب سے زیادہ قربانیاں دی تاکہ یہ اتحاد قائم و دائم رہ سکے، اگرچہ میرے چند ساتھیوں نے مجھے اس بات سے ہوشیار کیا تھا کہ کچھ جماعتیں ہماری ان قربانیوں کا فائدہ اُٹھا کر بھاگ جائینگی لیکن میں اُس وقت ماننے کیلئے تیار نہیں تھا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ ایک عوامی لڑائی ہے اور اس سے کوئی ہیں بھاگ سکتا لیکن انتخابی نتائج کے ایک ماہ کے اندر ہی میں غلط ثابت ہوا اور ایک پارٹی نے اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کی۔ یہ اس لئے ہوا کیونکہ نئی دلی جموں وکشمیر کی جماعتوں کے اتحاد سے خوش نہیں تھی، اُن کو پی اے جی ڈی پسند نہیں تھا، وہ چاہتے تھے کہ کسی نے کسی طرح یہ اتحاد بکھر جائے اور بالآخر وہ اس پارٹی کو الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ میں یہ بات یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں اگر نیشنل کانفرنس نے تنہا ڈی ڈی سی الیکشن لڑا ہوتا تو شائد کشمیر کے تمام 10اضلاع میں نیشنل کانفرنس کے چیئرمین ہوتے۔جب جون میں وزیر اعظم کیساتھ ہماری ملاقات ہوئی اُس وقت وہاں ایک بڑے ذمہ دار نے مجھے کہا کہ ”ڈی ڈی سی انتخابات میں آپ کی کارکردگی اچھی رہی اور آپ نے وہاں وہاں سے ووٹ لئے جہاں توقع نہیں تھی اور اگر آپ تنہا الیکشن لڑتے تو کارکردگی اس سے بہت زیادہ اچھی ہوتی“۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ہمیں اس کا کوئی پچھتاﺅ نہیں ، ہم نے عوامی مفادات کیلئے قربانی دی تھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا خمیازہ ہم کو بھگتنا پڑ ے گا ،
جہاں جہاں سے ہم کو سیٹیں مانگی گئیں ہم نے وہ سیٹیں دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ ”بھاجپا کے کہنے پر جو لوگ اس عوامی اتحاد سے الگ ہوئے وہ آج یہ طعنے دے رہے کہ ’عمر عبداللہ نے سب سے پہلے بھاجپا کیساتھ اتحاد کیا تھا‘، میں نے کب اس بات سے انکار کیا کہ میں این ڈی اے کا حصہ نہیں تھا، جس میں بھاجپا بھی تھی، میں نے کب کہا میں منسٹر نہیں تھا، میں تو فخر کیساتھ کہتا ہوں کہ میں نے اُس وزیر اعظم کیساتھ کام کیا جس کو آج بھی جموں وکشمیر کے لوگ عزت سے یاد کرتے ہیں، میں نے اُس وزیر اعظم سے کام کیا جنہوں نے جموں و کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے انسانیت، جمہوری اور کشمیریت کا نعرہ دیا، میں نے اُس وزیر اعظم کیساتھ کام کیا جس نے سرینگر مظفر آباد کا روڑ کھولا، میں نے اُس وزیر اعظم کیساتھ کام کیا جس نے سرینگر کی سرزمین سے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے۔کیا آپ یہ کہہ سکتے ہو؟جس بی جے پی کیساتھ آپ درپردہ رشتے بنا رہے ہیں، کیا اُس بی جے پی کے بارے میں ایسا کہا جاسکتا ہے ؟آپ کی بی جے پی نے جموں وکشمیر میں انسانیت کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے، جمہوریت کی دھجیاں اُڑا دیں اور کشمیریت کا تہیہ تیغ کرکے رکھ دیا، کہاں ہے آپ کی بی جے پی کی جمہوریت کے دعوے آج ایک ہزار ایک سو 20دن ہوگئے جب سے جموں وکشمیر کی دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کیا گیا، آپ سچ کو کب تک چھپائیںگے، آخر کار حقائق عوام کے سامنے آجائیںگے، اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں “۔ کنونشن میں دیگر لوگوں کے علاوہ سینئر پارٹی لیڈران تنویر صادق، سلمان علی ساگر، احسان پردیسی،شفقت وٹالی، انجینئر سمیر بٹ، زاہد مغل،بلاک صدور صاحبان اور ڈی ڈی سی ممبران کے علاوہ خواتین ونگ اور یوتھ کے عہدیداران بھی موجود تھے۔