سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی، موت کی سزا تک کا ہے التزام
نیپال حکومت نے 4 ستمبر 2025 کو ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، یوٹیوب اور ایکس سمیت 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ حکومت کے اس فیصلہ نے نیپال میں ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ کاٹھمنڈو میں ہزاروں جنریشن زیڈ (جین زی) کے نوجوان سڑکوں پر اتر آئے اور پارلیمنٹ تک پہنچ گئے۔ حکومت نے کاٹھمنڈو میں کرفیو نافذ کر دیا ہے اور ہندوستان-نیپال سرحد پر مسلح سرحدی فوج (ایس ایس بی) نے نگرانی بڑھا دی ہے۔ آئیے ذیل میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب تک کن کن ممالک میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں سزا کا کیا التزام ہے۔چین میں سوشل میڈیا کے استعمال پر سخت پابندیاں ہیں۔ یہاں فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز پر مکمل پابندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے اندرونی معاملات دنیا کے سامنے نہیں آ پاتیں۔ چین نے اپنے مقامی پلیٹ فارم جیسے وی چیٹ اور ڈوئین کو فروغ دیا ہے۔ جن سوشل میڈیا ایپس پر چینی حکومت کی جانب سے پابندی عائد ہے اگر کوئی استعمال کرتے ہوئے گرفت میں آ جاتا ہے تو بھاری جرمانے کے ساتھ جیل کی سزا کا بھی التزام ہے۔کِم جونگ اون کی حکومت میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ تک رسائی عام لوگوں کے لیے تقریباً نہ کے برابر ہے۔ صرف سرکاری ملازمین کو محدود انٹرنیٹ ایکسیس دیا جاتا ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کرنا ناممکن ہے، ساتھ ہی غیرقانونی سرگرمیوں کے لیے موت کی سزا تک ہو سکتی ہے۔ایران میں بھی قومی سلامتی کے نام پر فیس بک، ایکس اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر پابندی عائد ہے۔ حکومت سخت سنسر شپ نافذ کرتی ہے اور سوشل میڈیا پر حکومت مخالف پوسٹ کرنے پر سخت سزا کا التزام ہے، جس میں جیل یا موت کی سزا بھی شامل ہو سکتی ہے۔افغانستان میں بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ یہاں کسی بھی ذی روح چیز کی تصویر کشی اور اسے شیئر کرنے پر سخت سزا کا التزام ہے۔سعودی عرب میں بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر حکومت کی گہری نظر رہتی ہے۔ حکومت مخالف یا مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی پوسٹ کے لیے جیل، جرمانہ یا موت کی سزا تک ہو سکتی ہے۔ 2022 میں ایک شخص کو ٹویٹر (ایکس) پر حکومت مخالف پوسٹ کے لیے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔












