نئی دہلی/۔ہندوستان کی صدر محترمہ دروپدی مرمو نے آج نئی دہلی کے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں آدی مہوتسو 2024 کا افتتاح کیا۔اس موقع پر صدر مملکت نے کہا کہ ہمارا ملک تنوع سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن’تنوع میں اتحاد‘ کا جذبہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ اس جذبے کی وجہ ہمارا ایک دوسرے کی روایات، کھان پان اور زبان کو جاننے، سمجھنے اور اپنانے کا جذبہ ہے۔ ایک دوسرے کے لیے احترام کا یہ جذبہ ہمارے اتحاد کی بنیاد ہے۔ وہ آدی مہوتسو میں مختلف ریاستوں کی قبائلی ثقافت اور ورثے کے منفرد سنگم کو دیکھ کر خوش تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے کونے کونے سے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے طرز زندگی، موسیقی، فن اور کھانوں سے واقفیت حاصل کرنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ اس تہوار کے دوران لوگوں کو قبائلی معاشرے کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔صدر نے کہا کہ جیسے جیسے جدیدیت ترقی کر رہی ہے، اس نے زمین اور فطرت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ترقی کی دیوانگی کی دوڑ میں اس یقین کو تقویت دینے کے لیے ایک ماحول بنایا گیا کہ فطرت کو نقصان پہنچائے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پوری دنیا میں قبائلی برادریاں صدیوں سے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ہمارے قبائلی بھائی بہن اپنی زندگی کے ہر پہلو میں ارد گرد کے ماحول، درختوں، پودوں اور جانوروں کا خیال رکھتے رہے ہیں۔ ہم ان کے طرز زندگی سے تحریک لے سکتے ہیں۔ آج جب پوری دنیا گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، قبائلی برادری کا طرز زندگی اور بھی مثالی ہو جاتا ہے۔ صدر نے کہا کہ ٹیکنالوجی ۔جدید دور کی ایک اہم شراکت ۔نے ہماری زندگیوں کو آسان بنا دیا ہے۔ یہ درست نہیں کہ ہماری قبائلی برادری کو جدید ترقی کے ثمرات سے محروم رکھا جائے۔ ان کے تعاون نے ملک کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور مستقبل میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ٹیکنالوجی کو پائیدار ترقی اور معاشرے کے تمام لوگوں بالخصوص محروم طبقات کی ہمہ جہت ترقی کے لیے استعمال کریں۔صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان کے پاس روایتی علم کا انمول ذخیرہ ہے۔ یہ علم روایتی طور پر کئی دہائیوں سے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا ہے۔ لیکن اب بہت سی روایتی مہارتیں ختم ہو رہی ہیں۔ یہ علمی روایت معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ جس طرح بہت سے نباتات اور حیوانات معدوم ہو رہے ہیں، اسی طرح روایتی علم بھی ہماری اجتماعی یادداشت سے غائب ہو رہا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس انمول فنڈ کو جمع کریں اور آج کی ضرورت کے مطابق اس کا صحیح استعمال بھی کریں۔ ٹیکنالوجی بھی اس کوشش میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔