حاجی وارث علی شاہ کی درگاہ لکھنو¿ سے تقریباً 25 کلومیٹر دور بارہ بنکی کے دیوا میں واقع ہے۔ یہ درگاہ ملک کی واحد درگاہ ہے جہاں ہولی کھیلی جاتی ہے’جو رب ہے وہی رام ہے’ کا پیغام دیتے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کو مضبوط کرنے والے عظیم صوفی بزرگ حاجی وارث علی کی درگاہ دیوا شریف بارہ بنکی میں 118 سال بعد بھی ہر سال کی طرح روایتی انداز میں ہولی کھیلی گئی۔ اس رنگارنگ ہولی میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ شریک ہوئے۔ تمام طبقوں کے لوگوں نے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر ہوا میں رنگ اچھالا اور بابا بلھے شاہ کا کلام ”نام نبی کی رتن چڑھی، بند پڑی اللہ اللہ، ہوری کھیلوں گی کہہ بسم اللہ“ کو بلند کیا۔خیال رہے کہ یوپی میں بارہ بنکی کی دیوا شریف درگاہ کو ہولی کے دن سماجی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہولی کے دن مشہور صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہ کی درگاہ پر ہندوستان کی اس سوچ کی تصویر نظر آتی ہے جس میں ہندو مسلم سکھ عیسائی کو آپس میں بھائی بتایا جاتا ہے۔ ہر سال ملک بھر سے لوگ یہاں ہولی منانے آتے ہیں، مل کر رنگ اڑاتے ہیں اور ہولی مناتے ہیں۔
حاجی وارث علی شاہ کی درگاہ لکھنو¿ سے تقریباً 25 کلومیٹر دور بارہ بنکی کے دیوا میں واقع ہے۔ یہ درگاہ ملک کی واحد درگاہ ہے جہاں ہولی کھیلی جاتی ہے۔ کورونا کے بعد اس سال ڈھول کی تھاپ پر روایتی انداز میں جلوس نکالا گیا جو درگاہ کے قومی ایکتا گیٹ تک پہنچا جہاں مزار پر موجود لوگوں نے جلوس کا استقبال کیا۔ اس کے بعد تمام مذاہب کے لوگ مزار کے احاطے میں اکٹھے ہوئے اور یہاں خواتین اور بچوں نے ہولی کھیلنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں پر عرق گلاب اور کیوڑا عطر کا پانی چھڑکا۔ اس کے بعد جوش و خروش کے ساتھ پہلے گلاب، پھولوں کی پتیوں اور گلال کے ساتھ ہولی کھیلی گئی۔