موسم کی قہر سامانیاں برابر جاری ہیں اور لوگ انتہائی مشکل ترین حالات میں دن گذار رہے ہیں کل بھی شہر سرینگر میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 7ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جبکہ پلوامہ اور اننت ناگ میں منفی 9ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رہا۔بجلی اور پانی کی پریشانیاں بھی برابر جاری ہیں ۔وزیر اعلیٰ کی طرف سے بار بار انجنئیروں کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ لوگوں کو کٹوتی شیڈول کے تحت بجلی فراہم کی جاے اور پانی کے سلسلے میں بھی وہ بار بار متعلقہ حکام کو ہدایات دیتے آے ہیں لیکن موسم کا قہر چونکہ جاری ہے اسلئے اس لحاظ سے مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔وزیر اعلیٰ نے اہم تنصیبات کا دورہ کیا ۔افسروں کی میٹنگیں طلب کیں ۔لوگوں کی پریشانیوں پر دکھ کا اظہار کیا اور افسروں پر ضروری خدمات کی مناسب اور معقول فراہمی یقینی بنانے پر زور دیا ۔انہوں نے افسروں سے کہا کہ موسم کی وجہ سے جو چلینج پیدا ہوگئے ہیں ان کا سامنا کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے میں مدد مل سکے ۔اس دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ پن بجلی کی پیداوار مین 65فی صد کمی ہوئی ہے ۔ظاہر ہے اس سے بجلی کا بحران سنگین ہوگیا ہے ۔اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ جموں کشمیر میں بجلی پروجیکٹوں کی صلاحیت 1150میگا واٹ ہے جبکہ اس وقت بجلی کی پیدوار گھٹ کر صرف 250میگاواٹ رہ گئی ہے ۔ان حالات میں یہاں بجلی کی صورتحال کیا ہوگی اس کا ہر کوئی بخوبی اندازہ لگاسکتاہے ۔پانی کا حال بھی اسی طرح کا ہے ۔ماہرین موسمیات نے پیشن گوئی کی ہے کہ اگر موسم اسی طرح خشک رہے گا تو جنوری کے وسط تک درجہ حرارت مزید کئی ڈگری نیچے تک آسکتاہے ۔اب اگر ایسا ہوگا تو زندگی اور بھی اجیرن بن سکتی ہے ۔دریں اثنا اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ جموں کشمیر میں گلیشیر پگھل رہے ہیں اور ان سے جو خطرات لاحق ہونگے ان سے نمٹنے کے لئے سرکار کی طرف سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔اس کا مطلب ہے یک نہ شد دو شد ۔یعنی مصیبت پہ مصیبت ۔اس سے قبل ان ہی کالموں میں لکھا جاچکا ہے کہ سرما کشمیریوں کے لئے ڈھیر ساری مصیبتیں اور پریشانیاں لاتا ہے لیکن اس سرما کی بات ہی کچھ الٹی ہے ۔کیونکہ ابھی تک موسم خشک ہے اور درجہ حرارت برابر نیچے چلا جارہا ہے ۔چونکہ اس پر کسی کا بس نہیں اسلئے لوگوں کو ازخود ایسے اقدامات اٹھانے چاہئے جس سے ان کی زندگیوں میں تھوڑی سی آسانیاں پیدا ہوجائیں ۔پانی کا مناسب ذخیرہ گھروں میں رکھنا لازمی ہے بلکہ بجلی کے متبادل بھی گھروں میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔کانگڑیوں کا استعمال اگرچہ کشمیریوں کے لئے لازم ملزوم ہوتاہے لیکن اس کے استعمال میں حد درجہ احتیاط بھی لازمی ہے ۔ادھر کانگڑ ی کویلے کی قیمتیں بھی موسم کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔چونکہ اس وقت اب سب کچھ ڈی کنٹرول ہوا ہے اسلئے حکومت کے بجائے قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار بیوپاریوں کو ہی سونپا گیا ہے اور ان کو ہی دام مقرر کرنے ہیں لوگوں کو امید ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر بیوپاری چاہے وہ کوٹھدار ہو ،سبزیاں یا میوے درآمد کرنے والے کاروباری ہو یا دوسرے تاجر ہوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کی حالت زار دیکھ کر قیمتوں میں اضافے کے رحجان کو پنپنے نہ دیں اور مختلف چیزوں کی کم سے کم قیمتیں مقرر کریں تاکہ لوگوں کو قوت خرید جواب نہ دے سکے ۔














