سرینگر/امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ یکم اگست سے بھارت سے آنے والی اشیاءپر 25 فیصد درآمدی ٹیکس (ٹیرف) عائد کیا جائے گا، ساتھ ہی روس کے ساتھ جاری تجارتی تعلقات پر بھارت کو ایک ’سزا‘ بھی دی جائے گی، جس کی تفصیلات فی الحال واضح نہیں کی گئیں۔یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب امریکا اور بھارت کے درمیان کئی ماہ سے تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے، لیکن کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کی اپنی ’تحفظاتی پالیسیوں‘ کے سبب امریکا کو بھارت کے ساتھ زیادہ کاروبار کرنے کا موقع نہیں ملا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ بھارت نے ہمیشہ اپنا زیادہ تر فوجی ساز و سامان روس سے خریدا ہے، اور توانائی کے شعبے میں بھی وہ روس کے بڑے خریداروں میں شامل ہیں ایسے وقت میں جب دنیا چاہتی ہے کہ روس یوکرین میں قتل و غارت بند کرے یہ سب اچھی باتیں نہیں ہیں!تحفظاتی تجارتی پالیسیاںجو امریکی مصنوعات کو بھارتی منڈی میں رسائی میں رکاوٹ بناتی ہیں۔روس سے قریبی تعلقات، خصوصاً دفاعی خریداری اور توانائی کے شعبے میں، جسے وہ یوکرین جنگ کے تناظر میں قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔اس سے قبل اپریل میں ٹرمپ نے ’لبریشن ڈے ٹیرف‘ کے تحت بھارت پر 26 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا، جو چین (104 فیصد)، کمبوڈیا (49 فیصد)، اور ویتنام (46 فیصد) کے مقابلے میں کم تھا۔ اب، یہ نیا 25 فیصد ٹیرف اس پر مزید اضافہ ہے، جو تجارتی دباو کی نئی کوشش سمجھی جا رہی ہے۔ بھارتی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل، اسٹیل، اور فارماسیوٹیکل شعبے، اس فیصلے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکا میں بھارتی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی، جس سے ان کی مسابقت کم ہو گی۔ روس سے دفاعی اور توانائی کے سودے جاری رکھنے پر امریکا کی جانب سے ممکنہ پابندیاں یا تجارتی ’سزائیں‘ بھی متوقع ہیں۔واضح رہے کہ ٹرمپ کی پالیسی ایک بار پھر ”پہلے امریکہ“ (America First) کے نعرے پر مبنی دکھائی دیتی ہے، جہاں تجارتی دباو¿ اور محصولات کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ اگرچہ بھارت نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ ’تزویراتی خودمختاری‘ (strategic autonomy) کے دائرے میں رکھا ہے، مگر امریکا کی طرف سے یہ تازہ پابندیاں نئی سفارتی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتی ہیں۔













