آئین کو تشکیل دینے والی عظیم شخصیات کی غیرمعمولی کوششوں کو یادکر نے کادن:وزیراعظم نریندر مودی
عوامی نمائندے اختلافات بھلا کر قومی مفاد اورعوامی خدمات کے مقصد کو پورا کریں :صدر رام ناتھ کووند
آئین ہند کی 72 ویں سالگرہ کے موقع پر جمہوریت کے اعلیٰ ترین ادارے پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں یوم آئین کا اہتمام کیا گیا۔صدر رام ناتھ کووندکے پارلیمنٹ ہاو¿س میں پہنچنے پر نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو، وزیر اعظم نریندر مودی، لوک سبھا اسپیکر اوم برلا، راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش، پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی، مرکزی وزراءاور دیگر معززین نے ان کا استقبال کیا۔اطلاعات کے مطابق یوم آئین پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے آئینی شخصیات کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ26 نومبر 1949 کا ملک کی تاریخ میں بہت اہم مقام ہے کیونکہ اس دن ملک کے لوگوں نے دنیا کے سب سے بڑے تحریری آئین کو اپنایا تھا۔مودی حکومت نے آئین کے معمار کہے جانے والے باباصاحب امبیڈکرکی 125ویں سالگرہ پر سال2015 میں پہلا یوم آئین منانے کا اعلان کیا تھا۔
وزیراعظم مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادی کے بعد ملک کو چلانے والی حکومتوں نے 26 نومبر کی اہمیت کو ترجیح نہیں دی اور یوم آئین کو منانے کی روایت شروع نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ نئی نسل کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لئے یوم دستور منانا ضروری ہے۔وزیراعظم نریندر مودی نے ’یوم آئین‘ کے موقع پر اپنے پیام میں کہا کہ ’یہ ان عظیم لوگوں کی غیرمعمولی کوششوں کو یاد کرنے کا دن ہے جنہوں نے ہمارے آئین کو تشکیل دیا تھا‘۔اس موقع پر صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے دستور ساز اسمبلی کی بحث کا ڈیجیٹل ایڈیشن بھی جاری کیا۔ انہوں نے آئین کی اصل کاپی کا ڈیجیٹل ایڈیشن بھی جاری کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کے موجودہ آئین کو بھی جاری کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نےآئین پرایک آن لائن کوئز پورٹل بھی لانچ کیا۔پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کے آغاز سے قبل صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے یوم آئین کے موقع پراپنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیہی مجلس، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے منتخب نمائندوں کی صرف ایک ترجیح ہونی چاہئے۔ وہ ترجیح ہے، اپنے علاقے کے تمام لوگوں کی فلاح و بہبود اور ملک کے مفاد میں کام کرنا انہوں نے کہا ” نظریات میں اختلاف ہو سکتا ہے ، لیکن کوئی اختلاف اتنا بڑا نہیں ہونا چاہیے کہ عوامی خدمت کے اصل مقصد میں رکاوٹ پیدا کرے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن کے اراکین میں مسابقت ہونا فطری بات ہے لیکن یہ مسابقت بہتر نمائندے بننے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر کام کرنے کی ہونے چاہئے۔ تب ہی اسے صحت مند مسابقت سمجھا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں مسابقت کو دشمنی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔صدر نے پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہر رکن پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کے اس مندر میں اسی عقیدت کے اسی جذبے کے ساتھ عمل کرے، جیسے وہ اپنی عبادت گاہوں میں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ” درحقیقت اپوزیشن جمہوریت کا سب سے اہم عنصر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موثر اپوزیشن کے بغیر جمہوریت بے اثر ہو جاتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اختلافات کے باوجود شہریوں کے بہترین مفاد کے لئے مل کر کام کرتے رہیں گے، یہ امید کی جاتی ہے۔