جمعہ 4مارچ کی شام برزلہ میں ہڈیوں اور جوڑوں کے ہسپتال میں آگ کی بھیانک واردات رونما ہوئی جس سے اس ہسپتال کے اہم تین بلاک یعنی وہ عمارتیں جہاں وارڈ بلاک ،اوپریشن تھیٹر اور دوسرے اہم شعبے ہیں جل کر راکھ ہوگئے آگ پر قابو پانے میں فائیر سروس عملے کے علاوہ مقامی لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں نے جان جو کھم میں ڈالکر اہم رول ادا کیا ۔خاص طور پر مریضوں کو ہسپتال سے باہر نکالنے میں لوگوں اور ہسپتال کے عملے نے جانفشانی سے کام کیا جس کے نتیجے میں ہسپتال میں انڈور 108مریضوں کو بحفاظت باہر نکال کر صدر ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔بتایا جاتا ہے کہ مقامی لوگوں اور کئی رضا کار تنظیموں نے اس مقصد کے لئے اپنی گاڑیاں وقف رکھیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بہت سے لوگوں نے دکانوں کو کھلوایا اور کمبلیں خرید کر مستحق بیماروں کو فراہم کردیں کیونکہ بہت سے بیمار خوف اور سردی سے تھر تھر کانپ رہے تھے ۔بہر حال تین گھنٹے کی ان تھک محنت کے بعد آگ پر قابو پایا گیا ۔حکومت کی طرف سے اسی وقت اس واردات کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا ۔ہسپتال میں آگ کیسے لگی اس بارے میں مختلف قسم کی چہ مہ گوئیا ں کی جارہی ہیں ۔بہر حال ایک بات غالباًصحیح لگ رہی ہے کہ ہسپتال کا فائیر آڈٹ وقت وقت پر نہیں کیا گیا ہوگا جس کے نتیجے میں آگ نے اس قدر بھیانک روپ اختیار کرلیا ۔مقامی لوگوں ،ہسپتال کے عملے اور فائیرسروس کے اہلکاروں نے اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوے جس طرح مریضوں کو بچایا اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔قارئین کو شاید یا د ہوگا کہ سال 2011میں آستانہ عالیہ پیر دستگیر صاحب خانیار میں بھیانک آگ لگ گئی جس سے جو تباہی ہوئی وہ سب کے سامنے عیاں ہے ۔اس وقت عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے اس معاملے پر کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جس میں ایک قرار داد پاس کی گئی جس میں تمام سرکاری اداروں جن میں سکول کالج ،ہسپتال دیگر طبی ادارے وغیرہ شامل ہیں کا فائیر آڈٹ کروانے سے متعلق ایک قرار داد پاس کی گئی اس کے علاوہ تمام محکموں کے سربراہوں کے لئے یہ لازم قرار دیا گیا کہ وہ اپنے اور ماتحت دفاتر میں آگ بجھانے والے آلات وغیرہ نصب کروانے کے علاوہ وقتاًفوقتاًفائیر سیفٹی آڈٹ کروائیں۔اس وقت بیشتر تعلیمی اداروں ،طبی اداروں ،دفاتر وغیرہ میں آگ بجھانے والے آلات نصب کئے گئے ۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہی وہ آلات بھی EXPIREہوگئے نہ کہیں فائیر سیفٹی آڈٹ ہوا اور نہ ہی حکام نے بعد میں یہ دیکھنے کی زحمت گوارا کی کہ آیا سکولوں کالجوں وغیرہ میں یہ آلات نصب کئے گئے ہیں یا نہیں ۔فائیر سیفٹی آڈٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اگر آگ پر قابو پانے کے لئے ہسپتال میں مناسب آلات نصب ہوتے تو اتنی تباہی نہیں مچ سکتی تھی اور اگر وقت وقت پر فائیر سیفٹی آڈٹ ہوا ہوتا تو ایسی بھیانک واردات نہیں ہوتی شکر ہے کہ اس واردات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے ۔اسلئے حکومت کو اولین فرصت میں تمام سرکاری عمارتوں میںفائیر سیفٹی آڈٹ کروانے کے احکامات صادر کرنے چاہئیں۔