مہسا امینی کی ہلاکت کےخلاف ہونےوالوں مظاہروں سے فیصلہ کن طور پر نمٹنا ہوگا: ابراہیم رئیسی
تہران: ۴۲ ستمبر (ایجنسیز) ایران میں دوران حراست خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے واقعے کے خلاف ہونےوالے مظاہروں میں صرف ایک صوبے سے 700 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ صوبہ گیلان کے پولیس چیف جنرل عزیز اللہ مالیکی نے اعلان کیا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کرنے والے 739 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں 60 خواتین بھی شامل ہیں۔

علاوہ ازیں سنیچر کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والوں مظاہروں سے ’فیصلہ کن‘ طور پر نمٹنا ہوگا۔ صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ’ملک کی سکیورٹی اور امن کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنا چاہیے۔‘ ایران کے مقامی میڈیا نے صدر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابراہیم رئیسی نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاو¿ن کے دوران ہلاک ہونے والے ایرانی رضاکار فورس (بسیج) کے اہلکار کے اہل خانہ سے فون پر بات کی ہے۔ صدر نے بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیا کہ مظاہروں اور امن عامہ و سکیورٹی کو خراب کرنے کے درمیان فرق کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایران میں ہونے والوں مظاہروں کو فسادات قرار دیا ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے دعوے کے مطابق ایک ہفتہ قبل 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ایرانی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے ملک کے اکتیس صوبوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں اب تک 35 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ناروے میں قائم تنظیم ’ایران ہیومن رائٹس‘ کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک کم سے کم 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تنظیم نے کہا ہے کہ تازہ ترین 50 ہلاکتوں میں چھ افراد شامل ہیں جو جمعرات کی رات شمالی گیلان صوبے کے قصبے ریزوانشاحر میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے جبکہ دیگر اموات بابول اور امول میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔