وادی میں پالیتھین مخالف مہمیں چلائی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجودپالی تھین کے استعمال میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے ۔اس کی آخر وجہ کیا ہے ؟اس سلسلے میں صاف جواب ملا ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ہر جگہ پالیتھین دستیاب ہے تو لوگ اسی بنا پر اس کا استعمال کرتے ہیں اور اگر پالی تھین دستیاب نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ لوگ بھی اس کا متبادل تلاش کرتے اس طرح پالیتھین اپنی موت آپ مرجاتا ہے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سرکاری سطح پر لوگوں پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ پالیتھین استعمال نہ کریں اور دوسری جانب ہر جگہ بازاروں میں پالی تھین دستیاب ہے اور لوگ ساگ سبزیاں اور گھریلو استعمال کی دوسری چیزیں اسی پالی تھین میں لاتے ہیں ۔جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ یہاں وادی میں کسی بھی کارخانے میں پالی تھین نہیں بنایا جارہا ہے پھر کس طرح یہ ہر جگہ دستیاب ہے اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ باہر سے چوری چھپے مخصوص تاجر پالی تھین لاکر یہاں کھلے عام اس کا دھندا کرکے لاکھوں کماتے ہیں اگر ان پر روک لگائی جاے گی تو کوئی بھی شہری پالی تھین کا کبھی نام تک نہیں لے گا۔کیونکہ ایک تو یہاں اس کا متبادل موجود ہے تو دوسری بات یہ ہے کہ لوگ چیزیں خریدنے کے لئے گھروں سے بیگ لے کر نکلنے کے عادی بن جاینگے ۔اس سے زمین زراعت بھی محفوظ رہ سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فصل اگ سکتی ہے جبکہ دوسری جانب زمین بھی بنجر ہونے سے بچ سکتی ہے ۔ورنہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پالی تھین کا استعمال اسی طرح جاری رہے گا جس طرح آج کل اس کا استعمال ہورہا ہے تو پھر دس بیس برسوں کے بعد ہماری زمین میں پیداواری صلاحیت صرف دس فیصد رہ سکتی ہے ۔زمین بنجر ہوجاے گی اور لوگ دانے دانے کو ترس جاینگے ۔پالی تھین ایک ایسا زہر ہے جو ایکدم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا رہتا ہے اسلئے اس جانب حکومت کو توجہ دینی چاہئے اور سرینگر جموں شاہراہ پر کسی جگہ سخت ناکہ بندی کے دوران وادی پالیتھین پہنچانے والے ڈرائیوروں یا دوسرے لوگوں کو پکڑ کر قانون کے تحت سخت سے سخت سزا دی جا ے ۔اس کے بعد سگریٹ مخالف مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے ۔