ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بانڈی پورہ وسیم راجہ نے گذشتہ دنوں ایک میٹنگ میں ولر کی شان رفتہ کی بحالی کے سلسلے میں سرکاری سطح پر کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوے کہا کہ حکومت ولر کی شان رفتہ کی بحالی کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے کے لئے تیار ہے لیکن اس سب کے لئے سرکار کو لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے ۔اے ڈی سی کی اس بات میں کافی وزن ہے کیونکہ جب تک سرکاری اقدامات کو لوگوں کی طرف سے تعاون حاصل نہیں ہوگا تب تک ان کی کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی ۔بہرحال ولر کی خوبصورتی کو بحال کرنے سے اس قدرتی آبی ذخیرے کو بچایا جاسکتا ہے جو کشمیر کو ورثے میں ملاہے اور جس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ولر جنوبی ایشیا ءکی سب سے بڑی اور گہری جھیل ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں جیسا کہ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ خود غرض عناصر نے اس کے کناروں پر قبضہ کرکے میلوں آبی زمین کی بھرائی کرکے مکانات دکانیں اور کارخانے قایم کئے ۔حیرت کا مقام یہ ہے کہ آس پاس کی بستیوں سے نکلنے والی گندگی اور غلاضت کے علاوہ انسانی فضلہ بھی ولر میں جارہا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا پانی کس معیار کا ہوگا ۔ایک وقت تھا جب اسے میٹھے پانی کی شفاف جھیل کہا جاتا تھا اور اس کے پانی کو بلوریں کہہ کر شاعروں نے دیوان لکھے لیکن آج اس کا پانی تقریباً تقریباًزہر آلودہ بن چکاہے ۔جن لوگوں کو اس بات کا بھر پور احساس ہے کہ ہمیں ماحولیات کو بچانے کے لئے آبی ذخائیر کو سب سے پہلے بچانا ہوگا غم و اندوہ میں ڈوبے ہوے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جھیل ولر کی حالت کس طرح ابتر بنادی گئی لیکن اب ان کو اس بات کی امید ہے کہ حکومت اس حوالے سے حرکت میں آگئی ہے اور وہ ہر قیمت پر اس آبی ذخیرے کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے بشرطیکہ اسے لوگوں کا بھر پور تعاون حاصل ہو۔جھیل ولر سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جن میں ماہی گیر ،سنگھاڑے والے اور گھاس کے کاروباری شامل ہیں لیکن ان کے لئے بھی ایک اہم مسلہ اس طرح کھڑا ہوگیا ہے کہ اگر جھیل کے اندر پانی کا معیار عمدہ نہیں ہوگا تو نہ تو مچھلیوں کی پیداوار بڑھ سکتی ہے ۔نہ سنگھاڑے اُگ سکتے ہیں اور نہ ہی ایسی گھاس اُگ سکتی ہے جو مویشیوں کے کھانے کے کام آسکتی ہے ۔میٹنگ میں اس بات کا خلاصہ کیا گیا کہ حکومت اس جھیل کی شان رفتہ کی بحالی کے لئے جو اقدامات اٹھارہی ہے ان کامقصد مقامی نوجوانوں کے علاوہ ماہی گیروں اور دوسرے ایسے لوگوں جن کی روٹی روزی کا دارو مدار اسی جھیل سے ہے کے معیار زندگی کو بلند کرنا ہے ۔یہ تبھی ہوسکتا ہے جب اس جھیل کے ارد گرد ناجائیز قبضہ ہٹادیا جاے اس کے علاوہ جن بستیوں کی نالیوں کا رخٰ جھیل کی طرف ہو ان کا رخ دوسری جانب موڑدیا جانا چاہئے ۔اس کے ساتھ ہی جو بے ہنگم گھاس پھوس جھیل کے اندر پیدا ہورہی ہے اس کو جنگی بنیادون پر کاٹنا چاہئے تاکہ اس کی خوبصورتی برقرار رہ سکے اور زیادہ سے زیادہ سیاحون کو اس جھیل کی سیاحت پر آمادہ کیاجاسکے ۔