اس وقت جموں کشمیر میں ایک مناسب اور موثر ٹرانسپورٹ پالیسی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔حکومت کی طرف سے اگرچہ بار بار کہا جارہا ہے کہ آر ٹی سی فلیٹ کو متحرک کیاجاے گا لیکن ابھی تک ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔تعجب تو اس بات کا ہے کہ حال ہی میں چیف سیکریٹری کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا گیا کہ آر ٹی سی کی بسوں میں بچیوں اور خواتین کی حفاظت کے لئے وہیکل ٹریکنگ پلیٹ فارم کو نافذ کیا جاے گا لیکن خو د کارپوریشن کے پاس خواتین کے لئے گاڑیاں نہیں وہ کس طرح بچیوں اور خواتین کی حفاظت کے لئے کچھ کرسکتا ہے ۔کئی برس قبل آر ٹی سی کی طرف سے شہر کے مختلف روٹوں سے لال چوک تک خواتین کے لئے مخصوص گاڑیاں چلائی گئیں ۔یہ گاڑیاں صبح اور سہ پہر کو چلائی جاتی رہیں تاکہ آفس جانے والی خواتین اور کالج سکول طالبات کو منزل مقصود تک پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے لیکن LADIES SPECIALگاڑیاں کامیابی کے ساتھ کچھ عرصہ تک چلائی گئیں جس کے بعد ان کو بند کردیا گیا اب ان بسوں پر ان جگہوں جہاں لیڈیز لکھا ہواتھا پر پینٹ کیا گیا اب بسوں پر صرف سپیشل نظر آرہا ہے ۔جبکہ ان بسوں کو کسی بھی روٹ پر نہیں چلایا جارہا ہے ۔چیف سیکریٹری کو اجلاس میں بتایا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن محکمے کی طرف سے ابھی تک کسی بھی روٹ پر باقاعدگی سے مسافر گاڑیاں نہیں چلائی جارہی ہیں کچھ عرصہ قبل محکمے نے دہلی طرز کی ای گاڑیاں خریدیں لیکن ان کو کسی مخصوص روٹ پر نہیں چلایا جارہا ہے جس سے ان کی اہمیت اور افادیت ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو لوگوں کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے پریشانیاں نہیں اٹھانا پڑتیں ۔شہر و گام شام پانچ بجے کے بعد بس سروس بند کردی جاتی ہے جس کے بعد لوگوں کو مجبوراًآٹو رکھشاوں میں سفر کرنا پڑتا ہے ۔اگر پرایﺅٹ ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیاں شام پانچ بجے کے بعد بند کردیتے تو کوئی مسلہ ءپیدا نہیں ہوتا بلکہ لوگ آرٹی سی کی بسوں میں سفر کرتے ان کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی ۔لیکن جب یہ گاڑیاں کسی بھی روٹ پر چلائی نہیں جاتیں تو پھر لوگ کریں تو کیا کریں ۔حکام بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹی سی کو منافع پر چلانا ہے تو ٹھیک ہے اگر کارپوریشن کی آمدن بڑھ جاتی تو محکمے کا عملہ بھی وقت پر تنخواہیں اور دوسری مراعات حاصل کرتا لیکن جب مستقل طور پر گاڑیاں چلائی نہیں جاتیں تو پھر کس طرح کارپوریشن کی آمدن بڑھ جاتی ۔اس ادارے میں نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے ۔چیف سیکریٹری نے محکمے کے افسروں پر زور دیا کہ وہ محکمہ ٹرانسپورٹ کو منافع بخش بنانے کے لئے ڈیجی ٹلائیزیشن کو اپنائیں ۔یہ سب کچھ تو بعد میں ہوگا پہلے مختلف روٹوں کا تعین کرکے جب ان پرگاڑیاں چلائی جائینگی تب ہی نفع نقصان کی باتیں کی جاسکتی ہیں ۔فی الحال مسلہ صرف گاڑیاں چلانے کا ہے ۔جب ریگولر بنیادوں پر گاڑیوں کا اوپریشن شروع ہوگا تو کارپوریشن کو نفع بھی مل سکتا ہے ۔یہ عوامی ادارہ ہے لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکے ۔