کشمیر میں روائیتی پیشے آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں اور کوئی بھی اپنے آباو و اجداد کے پیشے اپنانے کے لئے تیار نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ پیشوں سے نہ تذلیل ہوتی ہے اور نہ ہی روایتی پیشے اپنانے سے سماج یا سوسائیٹی میں بے عزتی ہوتی ہے بلکہ لوگوں میں اس نوجوان کے تئیں عزت و وقار بڑھ جاتا ہے جو روائیتی پیشہ اختیار کرکے باعزت روزگار کمانے کا سلسلہ شروع کرتا ہے ۔ہمارے ہاں بہت سے روایتی پیشے تھے جو اب براے نام ہوکر رہ گئے ہیں ان میں دستکاری مصنوعات مثلاً قالین بافی ،جالکدوزی یا پیپر ماشی کے علاوہ حجامت ،نانوائی،ووڈ کارونگ وغیرہ وغیرہ ایسے پیشے ہیں جن کی طرف اب آج کی نوجوان نسل کم ہی توجہ دیتی ہے ۔اگرچہ دستکاری مصنوعات کی طرف نوجوان کسی حد تک اب بھی توجہ دیتے ہیں لیکن حجام کا بیٹا اپنے باپ دادا کا پیشہ اختیار کرنے سے اب کتراتا ہے ۔یہی حال نانوائی یا آشپازوں کا بھی ہے ۔اب یہ پیشے وہ لوگ اختیار کرنے لگے ہیں جن کا ان سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے وہ صرف روزگار کے لئے ان پیشوں کو اختیار کرنے لگے ہیں جس کی بنا پر اب کشمیر میں ان روائیتی پیشوں کا معیار گھٹ رہا ہے لیکن موجودہ ایام میں بھی ایسے بہت سے پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو اپنے آباو اجداد کے پیشے اختیار کرکے باعزت روزگار کمارہے ہیں ان میں ایک نوجوان وکیل بھی شامل ہے جو چرار شریف کا رہنے والا ہے اور جس نے بتایا کہ وہ چار بجے کے بعد جب وہ کورٹ سے نکلتا ہے تو شہر میں کانگڑیاں فروخت کرتا ہے کیونکہ یہ اس کے آباد و اجداد کا پیشہ ہے اور وہ خود کو اس پیشے سے الگ نہیں کرنا چاہتا ہے ۔اس نے کہا کہ لوگ اس کے اس اقدام کی سراہنا کرتے ہیں اسی طرح نشاط کے رہنے والے ایک نوجوان جو تعلیم یافتہ ہے نے کشمیر کی مٹی کے برتن بنانے کا روایتی پیشہ اختیار کرلیا ہے اور ایسا کرنے کے لئے اسے ہر جانب شاباشی مل رہی ہے ۔اس نوجوان جس کا نام محمد عمر کمار ہے نے دعویٰ کیا اس کے ہاتھ کے بنائے ہوے چمکدار مٹی کے برتن امریکہ اور چین میں مشینوں سے بنائے جانے والے مٹی کے برتنوں کے مقابلے میں صحت کے لئے انتہائی مفید ہیں ۔اس نوجوان نے بتایا کہ اسے یوٹیوب پر کافی سرچ اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ کشمیر میں ہاتھوں سے بناے جانے والے مٹی کے برتن ان ملکوں کے مٹی کے برتنوں سے کافی بہتر ہیں اور صحت کے لئے مفید ہیں جو کافی ترقی یافتہ ہیں ۔خبر رساں ایجنسی کے مطابق مٹی کے برتنوں سے محکمہ ہینڈی کرافٹس اور ہینڈلوم کافی متاثر ہوئے ہیں اور کارخانہ سکیم کے تحت اسے مزید سات نوجوانوں کو یہ فن سکھانے کے لئے کنٹریکٹ پر استاد مقرر کیا ہے تاکہ اس روایتی فن کو فروغ مل سکے ۔لوگ محمد عمر نامی اس نوجوان کو شاباشی دے رہے ہیں جس نے اپنے آباو و اجداد کے پیشے کو اختیار کرکے باعزت روزگار کمانے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔کشمیری دستکاروں کے ہاتھ سونے کے لئے جن کی بنائی ہوئی دستکاری مصنوعات کو اگرمناسب مارکیٹ فراہم کیاجاے تو ان کی مالی حالت کافی حد تک سدھر سکتی ہے ۔اسلئے جو نوجوان اپنے آباو و اجداد کے پیشے کو خواہ پارٹ ٹایم ہی سہی اختیار کرے گا وہ نہ صرف روزگار کماے گا بلکہ کشمیر کی اعلیٰ فنی روایات کو زندہ رکھے گا۔