پولیس کا کام ہے کہ وہ قانون کے دائیرے میں رہ کر ایسے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کرے جو مختلف نوعیت کے جرایم میں ملوث ہونگے ۔لوگوں کو پولیس سے یہی توقعات وابستہ ہیں کہ وہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرے اور سماج دشمن عناصر کو لگام دینے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے ۔گذشتہ دنوں پولیس کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ سماج سے منشیات کا خاتمہ کرنے کی کوششوں کو جاری رکھتے ہوے پولیس نے بارہمولہ میں ایک خاتون سمیت تین افراد کو منشیات سمگل کرنے کی کوشش کرتے ہوے پکڑا جن سے پوچھ گچھ جاری ہے ۔عام لوگوں نے اس خبر کو پڑھا اور بھول گئے کسی نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جبکہ اصل میں اس واقعے نے پورے کشمیری سماج پر بدنامی کا ایک ایسا داغ دیا جو مشکل سے ہی مٹ سکتاہے ۔پہلے تو مرد منشیات سمگل کرتے تھے لیکن اب عورتیں بھی اس دھندے میں کود پڑی ہیں جو کشمیری عوام کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے بلکہ اس سے کشمیری بدنام ہوگئے ۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ سروس سٹیشن کچہ ہامہ کے قریب ایک سکوٹی پر سوار تین افراد جن میں ایک عورت بھی شامل بتائی گئی کو مشتبہ حالت میں پکڑا گیا اور تلاشی کے دوران ان کے قبضے سے 776گرام ہیراین برآمد کرکے ضبط کرلی گئی ۔ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے ۔ضبط شدہ منشیات کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں کئی کروڑ لگائی جارہی ہے ۔جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ لوگ کس طرح کشمیری نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک بنانے کی کوششیں کررہے ہیں ۔کس طرح یہ کشمیری سماج میں نشے کا زہر بھر بھر کر نوجوانوں کے دل و دماغ کو منتشر کرکے ان کو کسی کام کاج کے قابل نہیں رکھتے ہیں کیونکہ جو لوگ نشہ کرتے ہیں ان کا دماغ ماوف ہوتا ہے اور وہ کوئی کام کاج کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔جو والدین اپنے بچوں کو خون پسینے کی کمائی سے پڑھاتے ہیں اس امید پر کہ وہ پڑھ لکھ کر اچھی طرح کماکر ان کے بوڑھاپے کا سہارا بن جاینگے لیکن انسانیت کے دشمن کچھ لوگ جو منشیات کا دھندا کرتے ہیں پھول جیسے نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا کر ان سے ان کی زندگیاں چھین لیتے ہیں کیونکہ نشے میں انسان کو اس بات کا ہوش و حواس نہیں رہتا ہے کہ وہ کیا کررہا ہے ۔اس کے سامنے ماں بیٹی کی کوئی عزت نہیں ۔اس کے دل میں محسوس کرنے کی طاقت اور اس کے دماغ میں سوچنے کی قوت سب ختم ہوجاتی ہے اگر وہ کپڑے بھی نہیں پہنے گا تو اسے اس بات کا کوئی ہوش نہیں ہوگا ۔یہ ایسے نوجوان کی تصویر پیش کی گئی جو نشے کا عادی بن جاتا ہے اور جو لوگ اس نوجوان کو نشے کا عادی بناتے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے یہ بات عام لوگ خود سوچ سکتے ہیں ۔اسلئے منشیات کا دھندا کرنے والوں کے خلاف کاروائی میں لوگوں کو پولیس کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کسی محلے ،گلی ،کوچے یا کالونی ،سوسائیٹی میں ایسے عناصر پائے جائیں جو منشیات کا دھندا کرتے ہوں لوگوں کو فوری طور پولیس سے رابطہ قایم کرکے ان کو گرفتار کروانا چاہئے ۔پولیس پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کرے یعنی ایسی دفعات نافذ کی جانی چاہئے جن سے بچ نکلنا منشیات سمگلر کے لئے ناممکن بن جاے ۔منشیات کا دھندا کرنے والے اسی صورت میں پولیس کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں جب عام لوگ اس معاملے میں پولیس کے شانہ بشانہ کام کریں۔