یہ بات افسوسناک ہے کہ کسی بھی معاملے میں لوگ خود کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجاے سب کچھ سرکار کے سر تھوپ دیتے ہیں ۔خود تو کوئی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلک سب کچھ سرکار پر چھوڑدیتے ہیں اس طرح جیسے سرکار کے پاس الہ دین کا چراغ ہے کہ جھٹ پٹ کام ہوجاے ۔منشیات کے خلاف کاروائی ہو یا ندی نالوں اور دیگر آبی ذخائیرکی صفائی ستھرائی لوگ خود تماشہ بین بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور صفائی ستھرائی کے لئے بھی حکومتی اداروں کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔اس بارے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ ہی آبی ذخائیر ،ندی نالوں اور دریاﺅں بشمول جھیل ڈل ،جہلم ،آنچار ،ولر ،وغیرہ مین بے تحاشہ کوڑا کرکٹ اور گندگی ڈالتے رہتے ہیں اور پھر واویلا کیا جاتا ہے کہ آبی ذخائیر اور جھیل ڈل ،جہلم ،ولر وغیرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں ۔بنیادی وجوہات کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی ہے ۔اگر لوگ ہی ان آبی ذخائیر کو گندہ نہیں کرتے تو پولیوشن کیسے ہوتا؟اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پانی میں بھی گندگی اور غلاضت ،ہوا میں بھی پولیوشن ۔اس میں اضافہ بھی انسانی غفلت قرار دی جاسکتی ہے ۔یعنی آبی آلودگی ،فضائی آلودگی اور صوتی آلودگی ہر گذرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے جس سے ہمارے ارد گرد کا ماحول گندگی اور غلاضت سے بھر ارہتاہے ۔ایک مقامی اخبارنے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ لکھی ہے جس میں کہا گیا کہ دریاﺅں ،ندی نالوں اور دیگر آبی ذخائیرکی صفائی ستھرائی کی صورتحال پریشان کُن ہے ۔یعنی ہمارے یہاں جتنے بھی ندی نالے ہیں آبی ذخائیرہیں یا جھیلیں ہیں وہ گندگی اور غلاضت سے بھرے پڑے ہیں۔جن کی صفائی ستھرائی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔چنانچہ نیشنل گرین ٹریبونل نے اس پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوے مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ آبی ذخائیر خواہ وہ کسی بھی قسم کے ہوں کی موثر صفائی کی طرف توجہ دیں ۔لیکن ایک بار پھر یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ اگر لوگ ہی آبی ذخائیر کو آلودہ کرنے سے باز رہینگے تو اس سے انسانی صحت پر مثبت اثرات پڑسکتے ہیں اور ماحول بھی خوشگوار بن سکتاہے ۔ان ہی کالموں میں بار بار اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی کہ ہمارے یہاں کے آبی ذخائیر کا حال انتہائی تباہ کن بن گیا ہے اور ان میں اس قدر گندگی اور غلاظت جمع ہوگئی ہے کہ اب بہت سے آبی ذخائیر کا وجود ختم ہونے کو ہے ۔بڑے بزرگوں کا کہنا ہے کہ وادی بھر میں کئی لاکھ میٹھے پانی کے چشمے تھے لیکن آج ان کا کہیں وجود ہی نظر نہیں آرہا ہے ۔سب کے سب نیست نابود کردے گئے ہیں۔یہ سب کیسے ہوا ؟اس بارے میں سب لوگ جانتے ہیں ۔ان پر ناجائیز قبضہ کیا گیا جبکہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں اتنی گندگی اور غلاضت جمع ہوگئی کہ یہ خود ہی نیست و نابود ہوگئے ہیں ۔اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اگر لوگ اس معاملے میں بھی سرکار کی کھینچا تانی کرینگے تویہ افسوسناک بات ہے ۔اسلئے لوگوں کو اس معاملے میں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرکے کوشش یہ کرنی چاہئے کہ وہ کسی بھی حالت میں آبی ذخائیر میں کوڑا کرکٹ نہیں ڈالینگے اور ان کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھینگے ۔آبی ذخائیر یعنی ندی نالے جھیل دریا جب صاف و پاک ہونگے تو اس سے صحت بھی برقرار رہ سکتی ہے اور اس کا اثر زمین زراعت پر بھی پڑسکتاہے ۔اسلئے نہ صرف آبی ذخائیر بلکہ آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنا فرایض میں شامل ہے کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے ۔