کسی بھی خطے کی اقتصادی ترقی کے لئے لازم ہے ا س خطے میں جرایم کی رفتار انتہائی کم ہو اور لوگوں کا رحجان صنعتوں کو فروغ دینے کی طرف ہو تاکہ معاشی نظام بہتر سے بہتر ہوسکے ۔مالیاتی نظام کا استحکام صرف سرکاری اقدامات سے ہی ممکن نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی سرکاری اعلانات سے کوئی انقلابی تبدیلی آسکتی ہے جب تک عوام کا تعاون سرکار کو حاصل نہ ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا ہے جس کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔اگر حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہو لیکن لوگ اس کے ساتھ نہ ہوں یا سرکار کو تعاون دینے کے لئے لوگ تیار نہ ہوں تو کچھ نہیں ہوسکتاہے ۔اسلئے کسی بھی پیکیج ،مالی نظام ،پروجیکٹ وغیرہ کی کامیابی کا راز عوامی تعاون سے مشروط ہے یعنی جب تک لوگ عملی طور پر اس سارے معاملے میں اپنا حصہ ادا نہیں کرینگے اسوقت تک تعمیر و ترقی یعنی مالی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے ۔ہمارے یہاں لیفٹننٹ گورنر صاحب نے بیرون یوٹی اور بیرون ملک سرمایہ کاروں کو جموں کشمیر میں سرمایہ لگانے کی دعوت دی اور ان سے کہا ہے کہ ان کے لئے یہاں سب سے زیادہ بہتر اور پر امن ماحول ہے اور اگر کوئی صنعت کار یہاں سرمایہ لگانے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ ہر معاملے میںخود کویہاں محفوظ پاے گا ۔سب سے پہلے یہاں جرایم نہ ہونے کے برابر ہیں دوسری بات یہ ہے کہ امن و قانون کی صورتحال بہت زیادہ بہتر ہے اسلئے بیرونی صنعت کاروں کو اس حوالے سے کسی بھی خدشے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں صنعتوں کے قیام کے لئے بھر پور انداز میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے ۔ملی ٹنسی سے قبل یہاں ہندوستان مشین ٹولز نے شالہ ٹینگ میں گھڑیاں بنانے کا بہت بڑا کارخانہ قایم کیا تھا جس میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں جنہوں نے گھڑی سازی میں تربیت حاصل کی تھی کو نوکریاں فراہم کی گئیں ۔وہ برسر روزگار ہوگئے کمپنی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی جس سے کمپنی کو بہت زیادہ فایدہ ملنے لگا تھا ۔لیکن ملی ٹینسی کی شروعات کے ساتھ ہی نہ جانے کس کی نظر اسکو لگ گئی نتیجے کے طور پر اس کو بند کیا گیا ۔ہزاروں کشمیری نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیروز گار بن گئیں ۔تب سے آج تک کسی بھی بڑے سرمایہ کار نے یہاں سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی سرکاری سطح یہاں کوئی بڑا کارخانہ کھولا گیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان سرکاری نوکریوں کے پیچھے پڑنے لگے ۔اگر یہاں ایچ ایم ٹی جیسے دو چار کارخانے لگائے جاتے تو اقتصادی طور پر یہاں استحکام پیدا ہوجاتا لیکن کارخانوں کی عدم جودگی سے یہاں بے کاری بڑھتی گئی اور تربیت یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا بیٹھے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ بیروزگاروں کی تعداد چارلاکھ سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے ۔اسلئے اب جبکہ لیفٹننٹ گورنر نے اس بات کااعلان کیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار یہاں آکر صنعتیں قایم کرینگے تو کشمیریوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ۔